تحریر انسانی ارتقا کی اہم ترین ایجادات میں سے ہے، شاید اسی لیے جن خطوں نے جس قدر تاخیر سے اسے اپنایا، وہ سماجی ارتقا میں اسی قدر پیچھے رہے۔ انسانی ایجادات کو انسانی استحصال کا ذریعہ بنانے والے چالاک سام راجیوں کو مگر اس کی اہمیت، اثر اور طاقت کا خوب اندازہ تھا، سو انھوں نے جہاں جہاں قبضہ گیری کی، وہاں دیگر وسائل سمیت تحریر پہ بھی اجارہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بولان نامی ہمارا خطہ بھی ایک تو تحریر کی نعمت سے خاصی تاخیر سے آگاہ ہوا، اور پھر سام راج کے شکنجے میں آنے کے بعد ایک عرصے تک یہاں اس نعمت کے دروازے بند رہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں کہیں جا کر تحریر کے سب سے مؤثر ذریعہ ‘ اخبار کے نام اور کام سے یہاں کے لوگ آگاہ ہوئے ۔اس آگاہی کو مگر عوام الناس تک رسائی سے روکنے کو سام راجیوں نے کئی ہتھکنڈے آزمائے۔ جیل، جبر، دھونس، سزا۔۔۔آمریت کے سبھی ہتھیار آزمائے گئے۔ رات مگر صبح کا راستہ کب روک سکی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے یہ سب جھیل کر بھی اس صبح کے طلوع ہونے کا اہتمام کیا، جس کی روشنی سے آج ہم فیض یاب ہوتے ہیں۔ اُس عہد کی صحافت کا تفصیلی احوال مسٹر کمال الدین احمد نے ’’صحافت، وادی بولان میں‘‘ نامی کتاب کی صورت محفوظ کیا ہے۔ 1878ء سے لے کر1970ء تک کے لگ بھگ سو سالہ عہد کی کہانی انھوں نے مفصل بیان کی ہے۔ اخبارات کے اجرا اور بندش سے لے کر، اداروں اور افراد کو ملنے والی سزاؤں اور آزمائشوں کی داستان جستہ جستہ بیان کی ہے۔ 1978ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کا تازہ ایڈیشن بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے حال ہی میں شایع کیا ہے، یہ صحافت کے طلبا اور اس سے وابستہ احباب کے مطالعے کا لازمی حصہ ہے۔اسی کے تسلسل میں بعد ازاں، جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغیات(اور حال میں کراچی یونیورسٹی سے وابستہ) ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر نے ’بلوچستان مین ذرائع ابلاغ کی تاریخ‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ جواس خارزار کے جدید عہد تک کی کہانی بیان کرتا ہے۔
ہمارے اکابرین نے جب دشتِ صحافت کی سیاحی اختیار کی تو برصغیر میں ’الہلال‘ ،’زمیندار‘ اور ’انقلاب‘ جیسے اخبارات کا طوطی بولتا تھا۔ خطے کا تاریخی سیکولراور ترقی پسندانہ پس منظر ان کی پشت پر تھا۔ یوں خوش قسمتی سے ہماری صحافت کی بنیاد ہی سام راج مخالف، آمر مخالف،حریت پسند، ترقی پسند اور عوام دوست رویوں کے ساتھ ہوئی۔ یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا، عزیز کرد، نسیم تلوی،عبد الصمد چکزئی، گل خان نصیر، بابو شورش جیسے ترقی پسند مصنفین، مدیر بنے تو اخبارات کا رنگ کیسا ہو گا، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ مگر ایک لحاظ سے پہلی اور آخری کھیپ ثابت ہوئی۔ ان کا تسلسل اُس طرح سے قائم نہ ہوپایا، جو قافلے کی صورت رواں رہتا۔ بالخصوص سن ستر اور اَسی کی دَہائی میں بیرونِ بلوچستان سے آئے ’غیر صحافیوں‘کی اکثریت نے یہاں کی صحافت کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ اخبارات کی ملکیت غیر مقامیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ مقامی ملازم، صحافی اور تجزیہ نگار مفقود ہوتے چلے گئے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں اور اکیسویں صدی کے اولین برسوں کے تین عشروں میں ہمیں گنے چنے نام ہی اس خارزار میں نظر آتے ہیں جو یہاں کے حقیقی مسائل اور عوام کے ساتھ جڑت رکھتے ہوئے معروضی حالات کا ادراک بھی رکھتے ہوں اور انھیں بلاتعصب بیان کرنے کا یارا بھی ۔ صورت خان مری، ڈاکٹر نعمت گچکی، حکیم بلوچ، انور ساجدی اور صدیق بلوچ کے علاوہ شاید ہی ایک آدھ نام اور ہو جس نے ان عشروں میں بلوچستان کے سیاسی سماجی معاملات پر تجزیے کا حق ادا کیا ہو۔شاہ محمد مری کے ماہنامہ ’سنگت‘ میں ان کے اداریے قابلِ غور کہے جا سکتے ہیں۔ان میں بھی انور ساجدی اور صدیق بلوچ ہی باضابطہ صحافی کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ صدیق بلوچ کی خصوصیت معاشی معاملات پہ ان کی دسترس سمجھی جاتی ہے۔ انھوں نے اردو میں ’آزادی‘ اور انگریزی میں ’بلوچستان ایکسپریس‘ کے نام سے دو اخبارات کا اجرا کیا، جس میں وہ باقاعدگی کے ساتھ بلوچستان کے مسائل پر تبصرے اور تجزیے کرتے رہے۔ انور ساجدی اپنے اخبار ’انتخاب‘ میں ’افکارِ پریشاں‘ کے عنوان سے مسلسل یہی کام سر انجام دیتے رہے۔ اکیسویں صدی کے اولین برسوں میں ’آساپ‘ کے نام سے جاری ہونے والے قوم پرست رحجان کے حامل اخبار نے بلوچستان میں سیاسی تجزیہ نگاروں کی ایک زبردست کھیپ پیدا کی۔ اس اخبار نے پہلی بار اپنے ادارتی صفحات مقامی لکھاریوں کے لیے مختص کر دیے۔ یوں گو کہ ایک مخصوص نکتہ نظر کی حامل تحریریں ہی سامنے آئیں، مگر اس ادارے نے سیاسی تجزیہ نگاری کی نرسری کا کام انجام دیا۔ ’آساپ‘ کی بندش کے بعد یہ نرسری بھی بند ہو گئی۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اختتام اور دوسرے عشرے کے آغاز کے دوران یہاں سوشل میڈیا صحافت کے نئے رحجان کے بہ طور سامنے آنے لگا۔ ملک سراج اکبر نے انگریزی میں ’دی بلوچ حال‘ کے نام سے بلوچستان کے پہلے آن لائن انگریزی روزنامے کا آغاز کر کے ایک سنگِ میل قائم کیا۔ انگریزی کی مگر عوام الناس مٰں وسیع پیمانے تک رسائی نہ ہونے کے باعث اسے شاید وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ انگریزی کے اچھے تجزیہ نگاروں کی کمی بھی اس کا ایک سبب تھی۔ قلات سے نوجوان صحافی یوسف عجب نے اسی طرز پر ’بلوچستان پوائنٹ‘ کے نام سے ایک تجربہ کیا۔ اسی سے جڑے ایک اور نوجوان عدنان عامر نے حال ہی میں ’بلوچستان وائسز‘ کے نام سے الگ ویب سائٹ بنا لی ہے۔ انگریزی کی یہ ویب سائٹس سوشل میڈیا کی وسعت کے باعث پالیسی سازوں اور انگریزی خواں طبقے میں ان نوجوان صحافیوں کی صلاحیت کا لوہا تو منوا رہی ہیں، مگر بہ طور مجموعی بلوچستان کا مقدمہ نہ تو باقی عوام تک پہنچ پا رہا ہے، نہ ہی انگریزی سے نابلد قارئین اور لکھاریوں کی اکثریت ان سے جڑ پا رہی ہے۔ البتہ ان کی صورت ہمیں دو چار نوجوان لکھنے والے ضرور میسر آئے ہیں، جو اب ملکی اور عالمی میڈیا میں بھی بلوچستان سے متعلق خوب تجزیہ نگاری کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کا کھلا پلیٹ فارم اب از خود ایک نرسری بن چکا ہے، جہاں سے نئے لکھنے والوں کی ایک زبردست کھیپ پیدا ہو رہی ہے۔ صرف چند نام ہی اس وقت وادی بولان کی صحافت کے اس نئے رنگ سے آپ کو متعارف کروا سکتے ہیں۔ انگریزی میں لکھنے والوں میں قلات سے یوسف عجب اپنے مزاج کی طرح تحریر میں بھی انکسار کے ساتھ سامنے آتا ہے، اس کے انگریزی مضامین کا ایک مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ عدنان عامر کی خصوصیت اس کا محققانہ طرز ہے۔ اکبر نوتیزئی بھی اعداد و شمار کو اپنے تجزیے کی بنیاد بناتا ہے۔مریم سلیمان، اپنے مختصر مضامین کے باوجودگویا نرگس بلوچ کا تسلسل ہے۔ اردو میں ہیبتان عمر کم گومگر سنجیدہ مؤقف رکھنے والوں میں سے ہے۔ شبیر رخشانی نے تسلسل کے باعث نے نہایت تیزی سے نئے تجزیہ نگاروں میں اپنی واضح جگہ بنائی ہے۔شاہ جہان بلوچ کی خوب صورتی اس کی تحریر کی سادگی ہے۔ اسی طرح فیس بک پہ لکھنے والوں میں ذوالفقار علی زلفی نہایت گہرے سیاسی شعور میں گندھے تبصرے اور تجزیے کا ہنر رکھتا ہے۔ قاضی ریحان ایک عرصے سے بلاگ لکھنے میں مہارت حاصل کر چکا ہے۔ وہ اس سے فکری مخالفین کو چت کرنے کا کام لیتا ہے۔ زرک میر کے قلمی نام سے لکھنے والے ایک صاحب، طنز کا نہایت کاری استعمال کرتے ہیں۔ طنز، سے ٹھوس تجزیے کی جانب مراجعت ان کے سنجیدہ قارئین میں یقیناًاضافے کا باعث بنے گی۔
بلوچستان سے نئے تجزیہ نگاروں کی اس کھیپ ، (جس میں اور کئی گم نام نام’ مجاہدین‘ بھی شامل ہیں)کی خاصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ یہ کسی خاص ادارے کے تربیت یافتہ نہیں، ان کی لگام کسی مخصوص ہاتھوں میں نہیں۔یہ مخصوص مفادات کے اسیر نہیں۔ پچھلے پانچ چھ برسوں میں سامنے آنے والی اس ’تجزیاتی نسل ‘کی وابستگی مخصوص نظریات، جماعتوں، اداروں اور افراد سے بالاتر ہے۔ یہ سب اپنے وطن کی خوش حالی کے خواب آنکھوں میں لیے تحریر کے خارزار میں اترے ہیں۔ یہ ایک ہی سمندر میں تیر رہے ہیں، یہ سب ایک ہی’ دام‘ کا شکار ہیں،سب کا مشترکہ ’ساحل‘ ایک ہی ہے۔۔۔کاش کہ انھیں ایک ہی کشتی نصیب ہو، تو یہ سفر بامعنی بھی ہو سکتا ہے، ’بامنزل ‘بھی!!