دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں کیپٹلزم کو پروان چڑھایاگیا وہیں سوشلزم کو بھی تقویت ملتی گئی مگر طاقت کے محور نے حالات کا رخ بدل کر رکھ دیا۔دوسری جنگ عظیم نے جہاں تباہی مچاہی وہیں سپر پاور بننے کیلئے ہاتھ پاؤں مارے گئے جس میں بڑی ریاستوں نے جنگی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ سوویت یونین اس دوران ایک بڑی طاقت بن کر ابھری مگر اس کے خلاف ایمپائرز نے ایکتا کرلیا اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں جو سوویت یونین کے ساتھ جڑ گئیں تھیں اُن پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیا جس کی ایک مثال ہمیں تاریخ کے بدترین اوراق پر ملتا ہے جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی دھماکہ تھا جس کے بعد جاپان نے جنگ بندی کی طرف اپنے قدم بڑھائے جبکہ نازی ازم کے بانی جرمن فوج کے سربراہ ہٹلر آخری وقت تک اس جنگ کو اپنی طرف موڑنے کیلئے کوششیں کرتا رہا۔ یہ جنگ دنیا میں بظاہر نظریاتی لگ رہا تھا جہاں ایک طرف سوشلزم تو دوسری جانب کیپٹلزم مگر دونوں نظریات میں وقت کے ساتھ ریفارم ہوتا رہا مگر اب تک یہ دونوں اپنی اصل صورت میں واضح طور پر سامنے نہیں آرہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ سرمایہ داروں کی اجارہ داری آج بھی دنیا بھر میں قائم ہے‘ کرپشن لوٹ مار استحصال کا راج آج بھی عروج پر ہے‘ وکی لیکس کے انکشافات سامنے آنے کے بعد ایک ہلچل مچ گئی لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ شاید ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی مگر پھر کچھ ہی عرصے میں یہ معاملہ ٹل گیا ۔اب پانامہ لیکس کے آنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے ہوئے پاکستانی سیاستدان اپنی صفائی پیش کررہے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کیا واقعی جس طرح کے کرپشن ہوئے ان میں ملوث لوگوں کو سزا ملے گی یا وہ خود اقتدار یا سیاست کو خیر باد کہہ دینگے لیکن ایسے حالات تو ہمارے ہاں کبھی نہ بنے اور نہ ہی خود ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فی الوقت ان الزامات سے صاف ہونے تک خود کو سیاست کے منظر نامہ سے الگ کیا جائے لیکن بدقسمتی سے یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ہمارے یہاں تاریخ میں ناممکن ہے‘ بہرحال میڈیا کیلئے ایک اچھا ایشو اور کھیل ہے جسے بھرپور طریقے سے کھیلاجارہا ہے کیونکہ خود میڈیا بھی مطمئن ہے کہ ہونے والا کچھ نہیں ہے البتہ اس ایشو پر پرو گرامز اوربریکنگ نیوز دے کر ریٹنگ بڑھائی جاسکتی ہے مگر اس کے پیچھے جو وجوہات ہیں اس کی تہہ تک جانے کیلئے تاریخ کے اوراق اور سرمایہ داروں کی گٹھ جوڑ سمیت ریاستوں کی تشکیل پر سیر حاصل بحث کیلئے نہ ہی علم ہے اور نہ ایسے خشک موضوعات پر بات چیت کی جائے گی کیونکہ عوام کو تفریح دینے کے ساتھ انہیں اپنی طرف مائل کرناہے جو ایک غیرذمہ دار انہ رویہ ہے کیونکہ جب کوئی بھی ایشو ہاتھ آجائے تو اس کے پس منظر پر ضرور روشنی ڈالنی چاہیے کیونکہ ہر ذی شعور شخص اِن تمام عوامل سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہمارے یہاں سے ایسٹ انڈیا تو چلی گئی لیکن اس کے نعم البدل کے طور پر دیگر کمپنیوں نے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں یہ حالت صرف ہمارے یہاں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عوام کیلئے بھرپور قانون سازی کی گئی ہے جس کی پاسداری وہاں کے حکمران سے لیکر عوام تک کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں آج بھی لارڈز طرز کی سیاست اور وہی پروٹوکول کلچر سمیت سرمایہ داروں کے ہاتھوں حکمرانی ہے اب تک گراس روٹ سے کسی بھی شخص کو یہ موقع نہیں ملا کہ وہ صدارت یا وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال سکے غریب شخص جتنا باعلم ہو مگر دولت کے بغیر وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہوتا اس لیے وہی سیاسی جماعتیں اقتدار تک پہنچتی ہیں جن کے پاس دولت اور طاقت ہو ‘ بہرحال وکی لیکس کے بعد پانامہ لیکس کا منظر عام پر آنا کوئی نئی اور اچھنبے والی بات نہیں کیونکہ سیاستدان ہی سرمایہ دار ہے اور اقتدار کا والی وارث بھی ۔کرپشن ہوتا رہے گا کچھ عرصے بعد کچھ اور لیکس کا شوشا آئے گا مگر عوام کی تقدیر کسی صورت نہیں بدلے گی جب تک بہترین قانون سازی سمیت عوام شعوری بنیادپر اپنی حق رائے دہی استعمال نہ کریں۔
وکی لیکس کے بعد پانامہ لیکس۔۔۔ نئی بات کیاہے؟
وقتِ اشاعت : April 23 – 2016