|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2016

پاکستان کے دو صوبے کے پی کے اور بلوچستان میں اس وقت افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہے پنجاب اور سندھ میں ان کی تعداد نسبتاً کم ہے، شام میں جنگی ماحول پیدا ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں شامی افراد نے یورپ سمیت دیگر ممالک کا رخ کیا جس میں سرفہرست جرمنی ہے جبکہ دیگر ممالک میں بھی جنگ اورمعیشت زدہ ممالک کے افراد نے یورپ سمیت دیگر ممالک کا رخ کیا ہے مگر تارکین وطن کیلئے سماجی تبدیلی سمیت امن وامان کو برقرار رکھنے کیلئے بہترین قوانین موجود ہیں جس کی وجہ سے تارکین وطن غیر قانونی طریقے سے کاروبار سمیت دیگر سرکاری دستاویزات نہیں بناسکتے مگر ہمارے یہاں افغانستان میں جنگی ماحول پیدا ہونے کے بعد افغان مہاجرین کی بڑی تعداد جوکہ لاکھوں میں ہے نے پاکستان کا رخ کیا اور خاص کر افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آج بھی بلوچستان میں موجود ہے جو نہ صرف کاروباری بلکہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہے ہیں موجودہ حکومت نے بہت سے غیر قانونی تارکین وطن کے شناختی کارڈ بلاک کیے مگر اب بھی کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بستیوں میں آباد ہیں جنہیں کیمپوں میں رہنا چاہیے مگرمؤثر نگرانی سمیت بہتر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اِن پر نظر رکھنا انتہائی مشکل ہے ‘ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کوئٹہ میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں اکثر غیر ملکی باشندے ملوث رہے ہیں خاص کر اُن کا تعلق افغانستان سے ہے‘حکومت کی جانب سے ایک بار پھر مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کی بات کی جارہی ہے کیا واقعی اس عمل کوسنجیدگی سے لیاجائے گا کیونکہ اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی وفاق کو ایک خط ارسال کیا تھا جو افغان مہاجرین کی فوری واپسی کے متعلق تھا مگر تاحال اس کے حوالے سے کیا جوا ب بلوچستان حکومت کو دیا گیا اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں مگر غیر ملکی تارکین وطن کی موجودگی امن وامان سمیت معیشت پر برے اثرات مرتب کررہی ہے۔بلوچستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں آج بھی تمام افغان مہاجرین کے انخلاء پر زور ڈال رہی ہیں ۔اُن کامؤقف یہی ہے کہ مہاجرین کی وجہ سے بلوچستان کے عوام سماجی تبدیلی سمیت معاشی اور سیاسی حوالے سے بھی متاثر ہورہے ہیں‘ یواین ایچ سی آر کی کیمپوں میں موجود افغان مہاجرین سے زیادہ تعداد میں مہاجرین بلوچستان کے دیگر اضلاع میں رہائش اختیار کرچکے ہیں جو واپس جانے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ اسلام آباد میں ہونے والے ایک افغان بستی کو جب ختم کیا گیا اس پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا جو ملک کیلئے مناسب نہیں تھا کیونکہ ایک تو وہ مہاجرین بستی میں غیر قانونی طریقے سے آباد تھے اور وہاں قبضہ کیے بیٹھے تھے جس پر چند سیاسی جماعتوں نے سیاست چمکانے کیلئے ان کی رہائش کیلئے پلاٹ کا مطالبہ کیا جو قانونی طور پر جائز نہیں تھا کیونکہ ایک تو وہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں دوسری اہم بات کہ وہ بستی پر قبضہ جمائے ہوئے تھے عدالتی نوٹس کے باوجود وہ بستی خالی کرنے سے انکاری تھے اور فورسز پر پتھراؤ کیا گیا جو انتہائی نامناسب عمل تھا‘ اب بلوچستان پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہ تعداد لاکھوں میں دکھائی دیتی ہے خاص کر اگر کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں غیر قانونی تارکین وطن، افغان مہاجرین کی بڑی بڑی بستیاں آباد ہیں اور وہ بڑے تاجر بھی بن چکے ہیں اس کے ساتھ ہی انہوں نے سرکاری دستاویزات بھی بنائے ہیں جو کسی المیہ سے کم نہیں کیونکہ جن افراد نے ان کی اس حوالے سے مدد کی ہے یا رشوت لیکر انہیں شناختی کارڈ جاری کیے ہیں وہ قانونی طور پر مجرم ہیں اُن کی بھی جانچ پڑتال کی جائے اور قانون کے مطابق انہیں سزا دی جائے تاکہ اس عمل کو دوبارہ دہرایا نہ جاسکے۔ حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی پر ایک بار پھر زور دیاجارہا ہے مگر اسے عملی جامہ پہنانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ دسمبر2015ء کو بھی اُن کیلئے آخری ڈیڈلائن دیا گیا تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا مگر اب امن و امان کی بہتری سمیت معیشت پر مزید بوجھ سے بچنے کیلئے مہاجرین کی فوری انخلاء ضروری ہے تاکہ یہاں بسے افراد کی حق تلفی نہ ہو ۔افغان مہاجرین کا انخلاء اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح ان کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے۔ عرصہ دراز سے رہائش پذیر افغان مہاجرین اپنے وطن لوٹ جائینگے یقیناًیہ عمل اتنا آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں جس کیلئے حکومت بھرپور طریقے سے غور کرتے ہوئے قیام امن سمیت سماجی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے انخلاء کو یقینی بنائے جو بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سمیت عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔