|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2016

تقریباً بلوچستان کے ہر حکومت کی یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو ۔ شہید نواب اکبر بگٹی سمیت تمام قوم پرست عناصر نے ہمیشہ یہ یقین دہانی کی تھی اور مزاحیہ انداز میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’چمڑی کے ساتھ دھمڑی بھی محفوظ،، اس طرح سے انہوں نے سرمایہ کاروں کو نہ صرف براہ راست خطاب کیا بلکہ مشترکہ دوستوں کے ذریعے بھی ان تمام سرمایہ کاری کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بلوچستان میں ان کا سرمایہ اور ان کا منافع محفوظ ر ہے گا ۔ حکومت ہر قیمت پر ان سرمایہ کاروں کی حفاظت کرے گی ۔ البتہ یہ وفاقی حکومت کی معاندانہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کی ہمت افزائی 67سالوں بعد بھی نہ ہو سکی ۔ اسی وجہ سے بلوچستان آج تک پسماندہ ہے یہاں پر لوگوں کے لئے روزگار کے ذرائع موجود نہیں ہیں حکومت بھی اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی ہے کہ حالات کو جلد سے جلد معمول پر لایا جائے جو عوام کی مقبول حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ حکومت ہے کہ اپنی پالیسی پر بضد ہے اور کوئی ایسا مثبت عمل کرنے کو تیار نہیں جس سے حالات معمول پر آئیں اور سرمایہ کاری میں اعتماد کی فضاء بحال ہو ۔ موجودہ صورت حال میں کوئی ذی شعور شخص یا سرمایہ کار بلوچستان میں سرمایہ کاری کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ کیونکہ آج کل کے دور میں لوگوں کی جان اور مال محفوظ نہیں ہے دن میں حکومت کا راج ہے اور اکثر علاقوں میں رات کو مخالفین حکمرانی کرتے ہیں ۔ دور دراز علاقوں میں بلوچستان کے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہیں گھروں سے باہر نکلنے کی کوئی جرات ہی نہیں کرسکتا اس صورت حال کوآج کئی سال گزر گئے ہیں اور اس میں ابھی تک کسی تبدیلی کے امکانات نہیں ایسی صورت حال میں سرمایہ کاری یا روزگار کے مواقع پیدا کرنا نا ممکن بات معلوم ہوتی ہے ۔ اس سے قبل حب کے علاقوں میں شوکت عزیز نے اچانک ٹیکس میں رعایت واپس لے لی یوں اس عمل سے سینکڑوں کی تعداد میں کارخانے بند ہوگئے یا سرمایہ کاروں نے ان کو پنجاب منتقل کردیا ۔ یہ حکومت اور حکمرانوں کی طوطاچشمی تھی کہ سینکڑوں کی تعداد میں بلوچستان جیسے پسماندہ ترین علاقے میں کارخانے بند کردئیے اور سرمایہ کاروں کو پنجاب میں زیادہ فائدہ نظر آیا ۔ شاید یہی وجہ ہو کہ حکومت نے یہ کام صرف پنجاب صوبے کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا ہواور ٹیکس کی رعایت واپس لے لی ۔ بلوچستان کے پڑوس میں چاہ بہار کی بندر گاہ ہے جہاں پر پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے اس کی وجہ سے روزگار کے بہت مواقع پیدا ہورہے ہیں اور ایرانی بلوچستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے ۔ بھارت چاہ بہار میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ حکومت اور اس کی معاشی اور سماجی پالیسی کو عوام کی مقبول حمایت حاص ہے ۔ چاہ بہار میں اسٹیل کے دو بڑے کارخانے قائم ہورہے ہیں ۔ ایک جاپان تعمیر کررہا ہے جس کی پیداوار بیس لاکھ سالانہ ہوگی اور دوسرا جنوبی کوریا جس کی پیداوار سالانہ سولہ لاکھ ٹن ہوگی ۔ اس کے مقابلے میں ہمارا ایک لاکھ ٹن پیدا کرنے والا کارخانہ مسائل کا شکار ہے ۔ دوسری جانب سالانہ تعلیم یافتہ طبقہ جو تعلیمی اداروں سے فراغت حاصل کررہی ہے ۔ اس کی تعداد سالانہ پچیس ہزار سے تیس ہزار کے درمیان ہے ۔ ان کے لئے ملازمت اور روزگار کے کوئی ذرائع نہیں ہیں ۔ صوبائی حکومت واحد ذریعہ ہے جو صرف چند ہزار افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے ۔ باقی لوگ بے روزگار ہیں ان کے لئے صرف اور صرف ڈاکہ ڈالنا اور چوری کرنا رہ جاتاہے۔ اس سے کسی بھی افسر اور وزیر کو یہ توقع نہیں رکھنی چائیے کہ باہر سے ملک کے اندر یا بیرون ملک سرمایہ کاری بلوچستان میں ہوگی تاوقتیکہ عوامی پالیسی میں تبدیلی نہ لائی جائے عوام الناس کی حمایت حاصل نہ ہو ۔ بلوچستان پسماندہ ہی رہے گا اور بھیک کا محتاج رہے گا خود کفیلی کا سفر بیکار افراد کے ذریعے ناممکن ہے ۔