حکومت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے درمیان سی پیک ایک متنازعہ مسئلہ بن چکا ہے ۔کے پی کے کی سیاسی جماعتوں نے منصوبوں سے متعلق زمین الاٹ کرنے سے انکار کردیا ہے کہ اگر انکے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے اور کے پی کے کا حصہ مختص نہیں کیا گیا تو زمین فراہم نہیں کرینگی۔ آزاد ماہرین معاشیات کی رائے ہے کہ چین منافع کمانے کے لئے پاکستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے آئے دن کے چین کے دورے اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ چین نے تقریباً 37ارب ڈالر صرف پنجاب میں سرمایہ کاری کی حامی بھر لی ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ پنجاب چینی سرمایہ کاروں کو بنیادی ڈھانچہ اور دیگر تمام سہولیات خصوصاً ہنر مندافراد بھی فراہم کررہا ہے جو بلوچستان اور کے پی کے فراہم نہیں کرتے ۔ چینی سرمایہ کاری یہ کبھی بھی نہیں کریں گے کہ کے پی کے اور بلوچستان میں پہلے بنیادی ڈھانچہ تعمیر کریں اور آبادی کو مختلف شعبوں میں تربیت بھی دیں اور بعد میں وہاں سرمایہ کاری کریں یہ تمام چیزیں پنجاب میں موجود ہیں ۔ پنجاب حکومت اور چینی سرمایہ کاروں کے درمیان معاہدے ہوچکے ہیں اب اس پر عمل درآمد شروع ہونے والا ہے اس لئے اس پر شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صدر پاکستان کوئٹہ میں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کیلئے آئے تھے اسی دوران انہوں نے اخبار نویسوں سے ملاقات بھی کی بلکہ ایک زور دار پریس کانفرنس کر ڈالی اور یہ انکشاف کیا کہ چین کی حکومت اور سرمایہ کاروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان میں موجودوسائل اور بنیادی ڈھانچہ کو استعمال میں لائیں گے اور اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور توسیع کریں گے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ گوادر کو پورے پاکستان سے ملانے والی سڑکیں تعمیر نہیں ہوں گی، اگر ہوں گی بھی تو وہ سی پیک کا حصہ نہیں ہوں گی ۔ چین ساحلی شاہراہ کو استعمال میں لائے گا البتہ ساحلی شاہراہ کو اوتھل سے سپر ہائی وے سے ملادیا جائے گا تاکہ یہ شاہراہ پورے ملک سے منسلک ہوجائے ۔ جتنی بھی شاہراہیں تعمیر ہورہی ہیں وہ پرانے منصوبے ہیں ان کا سی پیک سے کوئی تعلق نہیں ۔ ژوب ، گوادر شاہراہ نہ موجود ہے اور نہ ہی تعمیر ہوگی۔ ڈیرہ اسماعیل خان ، ژوب ، کوئٹہ ،شاہراہ ایک پرانی شاہراہ ہے جس پر وقتاً فوقتاً کام ہوتا رہتا ہے ۔ اب معلوم نہیں کہ چین کی حکومت اور سرمایہ کاروں نے اس کو سی پیک کا نام کیوں دیا ۔ چین پہلے ہی سے ریل کے ذریعے تہران پہنچ چکا ہے ۔ ریل کا کامیاب سفر اختتام پذیر ہوا جب سنکیانگ سے تہران تجارتی ٹرین تہران پہنچ گئی اس کے بعد چین نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ چاہ بہار میں بھی ایک صنعتی شہر تعمیر کرے گا۔ چاہ بہار اور گوادر کے درمیان فاصلہ صرف 72کلو میٹر ہے حکومت پاکستان نے گوادر بندر کی تعمیر اور توسیع اور اس سے ملحق صنعتی اور تجارتی علاقے کی تمام تر ذمہ داری چین کو سونپ دی ہے ۔ چین گوادر ائیر پورٹ اور ایک بجلی گھر تعمیر کرے گا حکومت بلوچستان نے چین کو گوادر میں زمین الاٹ کردی ہے خصوصاً صنعتی اور آزاد تجارتی زون اور ائیر پورٹ کی تعمیر کے لئے ۔ ائیرپورٹ پر کام جلد شروع ہوگا اور اگلے تین سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔ چین گوادر میں ایک ٹھیکے دار کے طورپر کام کررہا ہے اور اس کا سی پیک سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ چین کے لئے گوادر کی افادیت دہائیوں بعد ہوگی آئندہ چند سالوں میں نہیں ، چین گوادر کو فی الحال ایک معاشی یونٹ کے طورپر اور منافع کمانے کی غرض سے استعمال کرے گا۔ موجودہ صورت حال میں چین خطے کے تمام ممالک کو خوش رکھنا چاہتا ہے اورکسی تیسرے ملک کی وجہ سے چین بھارت سے کبھی بھی تعلقات خراب نہیں کرے گا جس کے ساتھ وہ اب 140ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت کررہا ہے جو چین کے مفاد میں ہے ۔ اس لئے سی پیک کی صورت حال سرد خانے کی نذرہوتی لگ رہی ہے شاید اس وجہ سے موجودہ نواز حکومت نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا ایک صوبہ بنانے کی کوشش کی جس کو بعض طاقتور عناصر نے ناکام بنا دیا ۔ گلگت بلتستان اب کشمیر کا ایک متنازعہ علاقہ ہے جہاں سے سی پیک گزرے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کو یہ مشکل نظر آتاہے کہ تنازعات کی موجودگی میں سی پیک کیسے کام کرسکے گا مگر پنجاب اوربلوچستان میں چین کی سرمایہ کاری متنازعہ نہیں یہ صرف دونوں ممالک کے درمیان ہے اور اس کا مخالف کوئی تیسر افریق یا ملک نہیں ہے ۔
سی پیک ۔۔۔ایک متنازعہ منصوبہ
وقتِ اشاعت : April 29 – 2016