پانامہ لیکس کے بعد ملک کی سیاسی تناؤ میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس انکشاف کے بعد کہ نواز شریف کی اولاد آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں اور ان کی اربوں ڈالر کی مالیت کی جائیدادیں بیرون ملک میں ہیں ، نواز شریف کے سیاسی مخالفین نواز یا مسلم لیگ پر اپنا سیاسی دباؤ بڑھا ر ہے ہیں ۔ بعض حلقے اس سے استٰثنی کا براہ راست مطالبہ کررہے ہیں ویسے بھی تو ان کا وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جواز ختم ہوگیا ہے کیونکہ ان کے صاحبزادوں نے تمام حقائق تسلیم کر لیے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی سیاسی ماحول میں اس کو ثابت نہ کیا جاسکے مگر اخلاقی طورپر نواز شریف کی قدر اور منزلت میں زبردست گراوٹ آئی ہے ۔یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے وہ تمام ارب پتی صنعت کار اور تاجر سین سے غائب ہوگئے جو 1980ء کی دہائی تک پاکستان کے سماج میں نمایاں نظر آتے تھے ان کی اکثریت گجراتی بولنے والے پاکستانی شہری تھے ۔ آج کل ان کا نام کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں سوائے چند ایک کے جو بڑی کمپنیوں کے مالک ہیں ۔موجودہ دور کے سرمایہ دار ، صنعت کار اور تاجر 1980ء کی دہائی کے بعد کے پیدا وار ہیں ان سب نے ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کرکے دولت کمائی ان میں نواز شریف کا خاندان بھی شامل ہے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما ء یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نواز شریف کو مقتدرہ کی حمایت حاصل تھی مقتدر ہ کے طاقتور ترین جنرلوں کے ذریعے نواز شریف نے اربوں ڈالر کمائے ۔ ویسے عام تجارت سے لوگ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی نہیں کر سکتے یہ صرف او ر صرف سرکاری اختیارات کا غلط استعمال ہے کہ لوگ جلد سے جلد ارب پتی بن جاتے ہیں۔ پورے ملک کے سیاسی ماحول میں یہ بات یقین سے کہی جارہی ہے کہ اگر کسی بھی شخص کو مسلم لیگ ن کا پروانہ مل گیا وہ سرکاری اختیارات اور وسائل کو استعمال کرکے جلد سے جلد ارب پتی بن جاتا ہے ۔ صرف یہی ایک وجہ ہے کہ پنجاب کے صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں ارب پتی ہیں کیونکہ حکمرانی پنجاب کے ہاتھوں میں ہے جہاں پر ایک سرکاری افسر کی تعیناتی پر ایک ارب اور پندرہ کروڑ روپے کی رشوت لی گئی ۔ عمران خان ہمیشہ یہ الزام لگا تے آئے ہیں کہ میگا پروجیکٹ کا مطلب میگا کرپشن ہے ۔ بڑے بڑے پروجیکٹ بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ کرپشن وصول کرنا اور سب کے سب آف شور کمپنی کے ذریعے بیرون ملک وصول کرنا ہے ۔ اب حکومت کو یہ ثابت کرنامشکل پڑ رہا ہے کہ حکمرانوں نے کمیشن اور کک بیک وصول نہیں کیے۔ عمران خان اور اس کی پارٹی اس مسئلے کو ایک مہم کے طورپر استعمال کررہی ہے جو یقیناً اپنے منطقی انجام تک جلد پہنچ جائے گی اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ حکومت کے خلاف ایک متحدہ محا ذ بن چکا ہے اور اس کا واحد مقصد شریف خاندان کو حکمرانی سے بے دخل کرنا ہے ۔ متحدہ محاذ کا تعلق پاکستان کی سب سے بڑی پارٹیوں سے ہے سوائے مولانا فضل الرحمان کے جو حکومت کا حصہ ہیں اور وہ حکومت سے باہر کسی بھی صورت میں نہیں رہ سکتے ۔ ان کو سب سے زیادہ تکلیف بلوچستان اور کے پی کے میں ہے جہاں وہ حکومت سے باہر ہیں اور اس کے قانون ساز سرکاری مراعات سے محروم ہیں اور اپنے ذاتی اخراجات پر گزارا کررہے ہیں ۔بہر حال نواز شریف کے لئے اب وزیراعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔ اتنی بڑی دولت صرف بیس ، تیس سال میں کیسے کمائی اور ملک سے دولت کس طرح باہر بھیجی گئی۔ عوام اس کا جواب چاہتے ہیں ان کو ملک کے ہر ایک فورم پر صفائی دینی ہوگی ان کی بادشاہت کے خاتمے کا وقت بہت زیادہ قریب آچکا ہے ۔ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔