|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2016

گزشتہ حکومت بلوچستان کی تعلیم دشمن کا نوٹس لیا جائے پوری قوم مطالبہ کررہی ہے لیکن شنوائی کرنے والا کوئی نہیں اس سلسلے میں ان کا مطالبہ ہے کہ این ٹی ایس کے امتحانات کو کالعدم کرکے دوبارہ تمام امیدواروں کا امتحان لیاجائے اور این ٹی ایس کے لئے جمع شدہ رقم امیدواروں کو واپس ہونی چائیے ۔ اور نام نہاد قوم پرست قیادت اور اس کی تعلیمی بجٹ کی نظر ثانی کی جائے کیونکہ یہ بجٹ بجائے تعلیم کی فروغ کے پیٹ پرست ، قبیلہ پرست اور نا م نہاد قوم پرست قیادت اپنی ذاتی قبیلی ، گروہی ، مفاد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے ۔ بلوچستان میں سیاسی قوتیں جو کہ اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہلوانے پر مصر ہیں ۔ انتہا ہی تنگ نظر گروپس پر مشتمل ہیں جو کہ لفظ قوم کو غلط اور غیر منطقی اور غیر اخلاقی طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پوری بلوچ قوم کو دھوکا دے کر بنک بیلنس ذاتی پراپرٹی میں اضافہ کرکے اپنی قبیلہ پر رحمت بلوچستان بنکر برستی رہی ہیں اور برستی رہے گی جب تک انکا چیک اینڈ بیلنس نہ ہو ۔ ’’قوم،، بلوچی اور عربی میں قبیلہ کو کہتے ہیں اگر اس لفظ کو لیکرہم اس کا احاطہ کریں تو قوم پرست کا اصل مطلب نیشنل پارٹی جو کہ زیادتیوں اور بے ضابطگیوں کے لئے اخبارات کی اوراق کو ضائع کرتی رہی ہے ان کا صرف اور صرف مقصد اپنی قبیلہ کو مالی مدد فراہم کرنا اور تمام سرکاری اداروں پر قبضہ جمانا، جائز ناجائز اپنے قبیلہ ، اپنی ورثاء اور خاندان کے لوگوں کو تاحیات امیر بنانے کی سازش ہیں ۔ تمام باقی علاقوں کے متعلق یہی کچھ ایسا ہی دیکھا اور سنا جارہا ہے ۔ قارئین کو یاد دلاتاہوں کہ یہاں کے ایم پی اے اور سابق وزیر اعلیٰ نے تو کمال کی ٹانگیں توڑ کر رکھ دئیے میرٹ کو پروپیگنڈا کے طورپر استعمال کرتے ہوئے این ٹی ایس کو لوگوں کے سامنے آسمانی صحیفہ بنا کر پیش کرنے میں تو ڈاکٹر صاحب نے کمال کر دکھایا اور اس پہاڑ کو کھوڈنے کے لئے ایک ہزار روپے ایک کینڈیڈیٹ سے چندہ وصول کرکے پہاڑ کھود دیا تو وہ صحیفہ پہاڑ سے رزلٹ چوہا نکلا ۔ جب عوام اور کینڈیڈیٹس کے سامنے وہ چوہا (ریزلٹ)پیش ہوا تو دیکھا گیا کہ پہلا ریزلٹ جو کینڈیڈیٹس کو ملا وہ بالکل صحیح دیکھا گیا مگر اس کو تقریباًپانچ یا چھ ماہ میں اپنے پاس روک کر نتائج بدل کر پیش کیے گئے جو کہ 48%نمبر حاصل کرنے والے ٹیچر لگ گئے مگر 50-60 %مارکس والوں سے خالی جھوٹ بول بول کر بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی مطلب یہ کہ پچاس پرسنٹ سے کم مارکس لینے والے تمام کے تمام سابق وزیراعلیٰ رشتہ دار اور قبیلہ کے امیدوار تھے جبکہ باقی 50-60 % مارکس حاصل کرنے والے تمام کے تمام امیدوارنہ اس کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔اور نہ ہی پارٹی سے اور نہ ہی اس کے رشتہ دار سے۔ اس لئے اس نے این ٹی ایس کی منہ پر کالک مل کر اپنی میرٹ اور نیشنلزم کا بھانڈہ پھوڑ کر نیشنل پارٹی کا ستیہ ناس کرکے رکھ دیا ۔ جناب کے سامنے پچاس پرسنٹ کے کینڈیڈیٹ زمین بوس ہوا تو دوسروں پر الزام تراشی کرنے بیٹھ گئے ۔ اس کو یہ کوئی سمجھادے کہ آپ نے جو کی کاشت کی ہے توگندم کی تمنا کیونکر پیدا ہوگئی ۔ پارٹی کی تمام دوستوں کو اپنی پارٹی کے ساتھ دوسروں پر الزام لگاتے ہوئے شرم آنی چائیے جبکہ میں بذات خود پارٹی میں رہ کر اپنے لیڈروں کو سلام کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہوں کہ اگر بات کرنی ہے تو کہاں سے شروع کروں اور کس طرح بات کروں جبکہ ان کے تمام کرتوت میرے سامنے ہیں ۔ جنہوں نے محسوس کرکے شرم آتی ہے ۔ مکران کے ادارے اور ان کی تمام تر ڈیپارٹمنٹل چیف اور سرکردہ نا اہل اور نالائق رشتہ دار اور قبیلہ کے قبضہ گیر ہیں مثلاًمکران ایجو کیشن ، ڈیپارٹمنٹ کو لیکر مکران بی اینڈ آر اور دوسری تیسری ادارے کا ذکر کریں کہ کون ان کا اور کون پرایا ، اور اس کے متعلق کیچ کے مئیر قاضی غلام رسول صاحب اور کراچی کے پارٹی جنرل سیکرٹری انجیئنر عبدالحمید ایڈووکیٹ اور چاکر رندبات چیت کے دوران عیاں ہوا کہ ’’سفید ہاتھی کو پکڑنا ،، دشووار نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔ ان کی یہ بات کہ قیادت اور اس گروپ سے جان چھڑانا چائیے میں سمجھتا ہوں کہ لغو ہے اور اس پارٹی کو واپس ٹریک پر لانا نا ممکن ہے ۔ مگر جو ساتھی ہاتھ لگا اس کو قاضی حمیدایڈووکیٹ اور چاکر رند کی ویوز پر گفتگو کرنے اور ایک نتیجہ تک پہنچنے کیلئے پارٹی دوستوں کو بولڈ ہونے کی ضرورت ہے وگرنہ ۔۔۔۔۔!