ان دنوں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کا چرچا عام و خاص کی زبان پر ہے۔تعلیمی تباہی سے دوچار صوبہ بلوچستان جہاں سے اس کوریڈور کی گزرگاہیں ہوں گی۔ اکنامک زون لگائے جائیں گے۔ گوادر پورٹ بنے گی۔ اس کوریڈور کے لئے ہنرمند افراد کی ضرورت ہوگی جو اکنامک کوریڈور کی ضروریات پر پورے اترتے ہوں۔ بلوچستان کی آبادی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد خلیجی یا دیگر ممالک کا رخ اسلئے کرتے ہیں کہ انہیں روزگار کے ذرائع میسر آجائیں فنی مہارت نہ ہونے کے سبب ان سے صرف مزدوری کا کام لیا جاتا ہے جنکی ماہانہ اجرت800یا 1000سے زیادہ نہیں ہوتی۔مزدوروں کی کمائی ماہانہ 25سے 30 ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔ انکی ال بھر کی کمائی 3لاکھ سے اوپر نہیں جاتی وہ اسی رقم سے نہ صرف اپنا گزر بسر کر لیتے ہیں بلکہ اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لئے بھی اس رقم کا آدھا حصہ پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ دو سال کے طویل دورانئے کے بعد دو ماہ کی چھٹی پر وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر وہ نوجوان شامل ہیں جنہیں تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے دوسرا یہ کہ بلوچستان میں روزگار کے ذرائع سرے سے موجود ہی نہیں اگر ہیں تو ان پر اعلیٰ تعلیم کی ڈگری اسکے راستے میں حائل رکاوٹ ہو جاتی ہے۔ تو مجبوراً انہیں اپنا دیس چھوڑ کر روزگار کی خاطر باہر کے ممالک جانا پڑتا ہے۔ اگر اپنے دیس میں روزگار کے ذرائع پیدا ہو جائیں تو پرائے دیس میں جانے کے لئے کون تیار ہوگا۔
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آگئی ہیں کہ اس پروجیکٹ کے تحت جہاں گوادر پورٹ بنے گی اور اکنامک زون کا قیام عمل میں لایا جائیگا تو وہیں اس سے ترقی کے نئے باب کھلیں گی اور روزگار کے وسیع ذرائع پیدا ہوں گے۔جہاں یہ ادارے قائم کئے جائیں گے تو وہیں ان اداروں کے لئے ہنرمند افراد کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے پنجاب سے ہنر مند افراد کا ایک کھیت تیار کرنے کا اعلان کیا جسکے مطابق پنجاب حکومت نے سن 2015کو PTVETAکے ذمے 2لاکھ 10ہزار افراد کو فنی تعلیم دلانے کی زمہ داری سونپی تھی۔ اس کام کے لئے حکومت پنجاب کی جانب سے ادارے کو سالانہ 6.3ارب روپے فراہم کئے جارہے ہیں۔ جبکہ پنجاب TEVTAنے 2018تک 5لاکھ 41ہزار128افرد کو ہنر مند بنانے کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔ اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پنجاب حکومت کی جانب سے نہ صرف پورٹ اینڈ شپنگ بلکہ دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ چائینیز لینگویج سکھانے کے لئے سال یا چھ مہینے کے کلاسز کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ یعنی پنجاب حکومت نے مستقبل میں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے لئے افرادی قوت کی فراہمی کے حوالے سے ایک پالیسی مرتب کی ہے۔لیکن بلوچستان حکومت اس حوالے سے صرف بیانات اور زبان کلامی کی حد تک محدود ہے اگر چاروں صوبوں کے ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے لئے مختص بجٹ کا احاطہ کریں تو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے اس ادارے کو ایک مختصر سی رقم کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب ٹیفٹا کو سالانہ 6.3ارب روپے، سندھ کو 5ارب کے آس پاس، خیبر پختونخواہ کو ساڈھے 3ارب جبکہ بلوچستان ٹیفٹا کو اس مد میں صرف63لاکھ روپے ملتے ہیں۔
BTEVTA(بلوچستان ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی) کا اقیام سن 2011کو ایک ایکٹ کے تحت عمل میں لایا گیا۔ اس اتھارٹی کے قیام کا اہم مقصد بلوچستان میں فنی شعبے میں تعلیم کو فروغ دینا تھا۔ اور وہ ادارے جو فنی مہارت دلانے کا کام کرتے ہیں انہیں ایک ایسا ڈھانچہ فراہم کرنا تھا جسکی چھتری تلے وہ اپنا کام ملکر کر سکیں۔ اس ادارے کو چلانے والا بورڑ آف گورنر ہوتا ہے جسکے چیئرمین وزیراعلیٰ ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی ممبران میں چیف سیکرٹری، فنانس، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور دیگر اداروں کے سربراہاں ہوتے ہیں۔ اپنے قیام سے لیکر اب تک اسکے بورڈ آف گورنر کی ایک بھی میٹنگ بلائی نہیں جا سکی ہے۔ تو کیا ہم اسے اس تناظر میں لیں کہ اس ادارے کو ابھی تک اون نہیں کیا گیا ہے۔ BTEVTAکے ڈائریکٹر زامران علی کا اس حوالے سے کہنا تھا ’’ لگ تو یہی رہا ہے کہ اس ادارے کو اون نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس سال فروری میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اسکے لئے میٹنگ بلایا تھا لیکن فنانس اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹریز کی مصروفیات کی وجہ سے اسے پوسٹ پونڈ کیا گیا۔ امید ہے آنے والے وقتوں میں جلد ہی اسکے لئے میٹنگ بلائی جائیگی‘‘۔
اس ایکٹ کے تحت چار ادارے جس میں انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ، ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، لیبر اینڈ مین پاور ڈیپارٹمنٹ اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں کو بی ٹیوٹا کے انڈر کام کرنا ہوتا ہے جبکہ BTEVTAکا مقصد ان اداروں کے لئے پالیسی بنانا، ڈویلپمنٹ اور مانیٹرنگ کرنا ہے۔ لیکن ان میں سے دو ادارے ابھی تک بی ٹیوٹا سے متفق نہیں ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس ادارے کے قیام سے انکے اداروں کا ساکھ کو متاثر کرنا ہے۔
ادارہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا کام معذور بچوں کو تعلیمی سہولیات مہیا کرنا ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کو چھوڑ کر صوبے کے باقی اضلاع اور ڈویژنوں میں بچوں کی فلاح کا کام غیر فعالیت کا شکار ہے۔ انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پورے صوبے میں اس وقت 34کارپٹ سینٹرز، 35دستکاری سینٹرز، 39ٹیلرنگ سینٹرز، کشیدہ کاری کے 3سینٹرز، کاٹن ہینڈ لم کی ایک، چمڑے کے 12سینٹرز، کاٹن اینڈ سلک ہینڈ لوم کے 6سینٹرز، مزری کے 6سینٹرز، پوٹری کے 3سینٹرز اور پانچ نئے سینٹرز چل رہے ہیں۔ یہ کتنا فیصد آؤٹ فٹ دے رہے ہیں ہماری کوشش تھی کہ ڈائریکٹر سے انکا مؤقف لیا جائے تاہم ان تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکی۔ لیبر اینڈ مین پاور ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت 19ٹریننگ سینٹر چل رہے ہیں ان میں سے کچھ ٹریننگ سینٹرز وہ ہیں جو انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ سے مین پاور ڈیپارٹمنٹ کو ٹرانسفرڈ ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی سطح پر سب سے زیادہ افرادی قوت پیدا کرنا اسی ادارے کی زمہ داری میں آتا ہے۔ لیکن اس ادارے کی کارکردگی اسی ادارے کے ماتحت سینٹرز کی زبوں حالی کی صورت میں عیاں ہو جاتی ہے ہے۔اس ادارے کی فعال سینٹرز صرف کوئٹہ کی سطح پر موجود ہیں۔ جبکہ باقی اضلاع میں قائم سینٹرز برائے نام کے چل رہے ہیں۔ جرمنی کی جانب سے قائم کردہ پاک جرمن ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر حب 1995ء سے کو اسلئے قائم کی گئی تاکہ یہاں سے ہنرمند افراد نکل کر صنعتی علاقوں کے لئے اپنی خدمات سرانجام دے سکیں۔ یہ ادارہ اپنے قیام کے تین سال بعد مین پاور ڈیپارٹمنٹ کے انڈر آگیا۔ بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں واقع ہونے کی وجہ سے اسکی اہمیت میں اضافہ ہونا چاہئے تھے پر اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ حب کے مقامی صحافی بابر نصیر کا کہنا ہے ’’ اس وقت ٹیکنیکل سینٹر میں اسٹاف کی تعداد 89ہے جبکہ طلباء کی تعداد 60کے درمیان ہے۔ اس وقت جرمن ادارے نے اسے جو مشینری مہیا کی تھی وہ انتہائی اعلیٰ کوالٹی کے تھے۔ جن کی مناسب دیکھ بال اور آئلنگ نہ ہونے کی وجہ سے ان پر زنگ پڑ چکا ہے۔ تین تین ماہ تک بجلی نہیں ہے جبکہ پانی کا مسئلہ ہے ہی ہے۔ حب شہر سے 10کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس کے لئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت موجود نہیں۔ جبکہ ہاسٹل خستہ حال ہونے کی وجہ سے رہائش کے قابل نہیں‘‘۔
مین پاور ڈیپارٹمنٹ کے انڈر عورتوں کے لئے قائم ویمن ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر سمنگلی روڑ پر واقع ہے۔ یہ ادارہ سن 1989سے عورتوں کو ہنرمند بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ ادارے کے پاس ہوسٹلنگ نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ حاصل کرنے والے کوئٹہ کے مقامی ہیں۔ جبکہ باقی اضلاع کی خواتین کے لئے حکومتی اقدامات دیکھنے کو نہیں آئے ہیں۔ اس سینٹر میں بیوٹی فکیشن، کمرشل کوکنگ،ڈریس ڈیزائننگ، اسکرین پرنٹنگ اور کمپیوٹر ٹریڈ سکھانے کا کام کیا جاتا ہے۔سینٹر سے سالانہ فارغ ہونے والے طالبعلموں کی تعداد 500ہے ۔ میرا سوال ایکٹنگ پرنسپل رفعت یاسمین سے یہی تھا کہ خواتین کو ہنرمندبنانے کا کام تو کیا جا رہا ہے پر کیا مارکیٹ اور اداے ان خواتین کو اون کرنے کو تیار ہیں تو انکا کہنا تھا’’ روزگار کا مسئلہ تو ہے۔ ہمارے یہاں انڈسٹریز سیکٹر کی کمی ہے۔ اور اداروں کے پاس انکو روزگار دلانے کے ذرائع نہیں۔ زیادہ تر عورتیں یہاں سے فارغ ہو کر اپنا چھوٹا سا کاروبار خود شروع کرتی ہیں لیکن سب کے پاس اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے وسائل موجود نہیں‘‘ وہ کہتی ہے کہ ہم نے ویمن ایمپلائمنٹ سیل کی ہے جسکی وہ خود انچارج ہیں یہاں سے فارغ ہونے والے خواتین کی اندراج ہوتی ہے اس سیل کے قیام کا مقصد اداروں کو ہنرمند خواتین کو مارکیٹ تک رسائی فراہم کرنا ہوتا ہے اور ان اداروں سے جوڑنا جن ٹیکنیکل خواتین کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تاحال ان سے کسی بھی ادارے نے رابطہ نہیں کیا ہے۔
ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کوئٹہ بھی مین پاور ڈیپارٹمنٹ کے انڈر آتی ہے یہاں سے سالانہ انرولمنٹ 2000کے قریب کی جاتی ہے۔ ادارے کے سربراہ علی حیدر شاہوانی ادارے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہاں ریفریجریشن، الیکٹرانکس، ویلڈنگ، موٹر بائیک ریپیئرنگ سمیت 13ٹریڈ سکھائے جا رہے ہیں۔ ادارے کامقصد افراد کو ہنرمند بنانا ہے۔ تو کیا ادارے کے پاس اتنا بجٹ ہوتا ہے کہ وہ ہنرمند پیدا کرسکے۔ وہ اس حوالے سے بجٹ کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اگر جس سیکٹر پر کام کر رہے ہوتے ہیں اسکا زیادہ حصہ پریکٹیکل سیکشن پر منحصر کرتا ہے۔ پر جب پریکٹیکل کا فقدان ہو تو وہاں ہنرمندی کا فقدان ہوتا ہے۔ ہماری کوشش تھی کہ ادارہ لیبر اینڈ مین پاور ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سے پوچھا جائے پر کئی بار دفتر کا رخ کرنے پر وہ ہمیں دستیاب نہیں ہو سکے جبکہ انہیں بذریعہ فون رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انکی طرف سے ریسپونس نہیں آیا۔
اگر اتنی تعداد میں سالانہ ہنرمند افراد فارغ ہو رہے ہیں تو انکے لئے روزگار کے ذرائع کون پیدا کرے گا۔ اس کا حل ابھی تک ڈھونڈا نہیں گیا ہے۔ ایک اور ادارہ جس نے ہنرمندی کا کا بیڑا اپنے سر پر اٹھا یا ہے وہ ہے ٹیکنیکل ایجوکیشن جہاں اسکول اور کالجز کی سطح پر ہنرمندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ رپورٹ میں گورنمنٹ آف بلوچستان کی واحد ٹیکنیکل اسکول کا ذکر کیا تھا جسکا کام صرف اور صرف فنی تعلیم دلوانا ہوتا ہے وہاں کا عالم یہ ہے کہ اسکول پر حکومتی توجہی کے باعث نہم اور دہم کے کلاسز ختم کئے جا چکے ہیں۔ جو حکومتی دعووں پر سوال اٹھاتی ہے۔اس ادارے میں جدید مشینری اور بجٹ کا رونا رویا جا رہا ہے۔لیکن وہی کہتے ہیں کہ چراغ تلے اندھیرا۔اگر اداروں کی کارکردگی ہو جائے زیرو تو کہاں سے پیدا ہوں گے ہیرو۔
بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی نے جہاں مایوسی اور احساس محرومی کو جنم دیا ہے۔ تو وہیں اس صورتحال سے پیدا ہونے والی بیروزگاری اور بیروزگاری کے نتیجے میں نوجوانوں کے زہنوں میں اٹھتے سوالات انہیں نہ جانے دھکیل دیتے ہیں اس بات کا ادراک کہیں موجود نہیں۔وہ بیروزگار جو آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں حکومت وقت روزگار فراہم کرے۔ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور سے بڑھ کر کوئی بڑا opportunityہو نہیں سکتا۔ لیکن اس سیکٹر کو پر کرنے کے آنے والے وقتوں میں ہنرمندوں کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہو سکتی ہے جسکی جانب ابھی تک توجہ نہیں دی جارہی ہے گو کہ موجودہ وزیراعلیٰ نے اپنی پہلی speechکے دوران اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ اس سیکٹر پر خاص توجہ دیں گے۔ اور انکی جانب سے یقین دہانی بھی کی جا چکی ہے۔ لیکن تاحال عملی اقدامات صرف سننے کی حد تک نہیں دکھائی نہیں دے رہے۔
BTEVTAابھی تک اپنا ویب سائیٹ لانچ نہیں کرسکا جسکی وجہ سے نوجوانوں کو مواقع کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ اسکی بنیادی وجہ زامران علی یہ بتاتے ہیں کہ ویب سائیٹ تو تیار ہے ہم نے ویب سائیٹ کوابھی تک اسلئے لانچ نہیں کیا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اسکا افتتاح کریں گے۔ جب بورڑ آف گورنر کی میٹنگ ہو گی تو اس کے ساتھ ویب سائیٹ کا افتتاح انکے ہاتھوں کیا جائیگا۔انکا کہنا ہے کہ انکا ادارہ نیشنل ہائی وے والوں کے ساتھ ملکر 16اضلاع کے بچوں کا ٹریننگ دے رہی ہے اس کے علاوہ ٹیچر ٹریننگ اور دو انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ PCSIRپچھلے تین سال سے بند پڑا ہوا تھا وہ ہم نے دوبارہ فعال کیا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے ہماری کوشش ہے کہ جو ٹریڈ اسکی ضرورت ہے اسی ٹریڈ کو متعارف کرایا جائے اس حوالے سے ادارے نے ایک سمری وزیراعلیٰ کو ارسال کی ہے کہ اوتھل میں بننے والی پولی ٹیکنیک کالج کو سی پیک کے حوالے سے مختص کیا جائے تاکہ وہاں سی پیک کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ سی پیک کے حوالے سے ہم نے کنسلٹنسی ہائیر کئے ہیں جسکا کام یہ ہوگا کہ وہ دیکھے سی پیک کے لئے کونسے ٹریڈ کی ضرورت ہے اور ہمیں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کتنی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔، انکا کہنا ہے کہ انکی کوشش ہے کہ حب اور گوادر دو ایسے علاقے ہیں جہاں چائنیز زبان سکھانے کا کام کیا جا سکے۔ انکا کہنا ہے کہ گو کہ مین پاور ڈیپارٹمنٹ کے پاس 10سے 12ہزار کی تعداد میں اسکلڈ لوگ موجود ہیں پر کئی سال سے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے انہیں دوبارہ ٹرینڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ تین یا چار ٹریڈ جن میں مزری، گڑھے بنانا، جمڑا ایسے ٹریڈ ہیں جن پر پالیسی اور کریکولم ڈیزائننگ کے علاوہ انہیں ایک ٹریڈ کے شکل دینے کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے گوادر میں بننے والی ٹریننگ سینٹر جس پر ایک ارب روپے کا لاگت آجائے گا گزشتہ دو سال سے PSDPمیں پڑا ہوا ہے اور اپرول کا منتظر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر ہیں انکی بلڈنگ خستہ حال ہیں جبکہ 70فیصد مشینری آؤٹ آف ڈیٹ ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔میں نے ان سے سوال کیا کہادارے کے پاس پروگرامز توکافی ہیں پر کیا اس محدود بجٹ میں یہ تمام پروگرام شروع ہو سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ آیا تمام ادارے جو ہنرمندی پر کام کر رہے ہیں انہیں بی ٹیوٹا کے انڈر لایا جا سکتا ہے تو انکا کہنا تھا کہ ’’اس بجٹ میں ممکن دکھائی نہیں دیتا البتہ اس سال کے مالی بجٹ میں ہم نے 85کروڑ کا ڈیمانڈ کر رکھا ہے۔ جیسے ہی ہماری ڈیمانڈ پر عملدرآمد کیا جائیگا تو ہم چاروں ادروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ سی پیک کے حوالے سے ہم سالانہ 10ہزار افراد کو ٹرینڈ کر سکیں۔ جس کے لئے بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم کام کا آغاز نہ کر سکے۔ گو کہ اب بھی ان اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیں دشواریاں پیش آرہی ہیں پر ہماری کوشش ہے سب کو ساتھ لیکر چلیں‘‘۔بلوچستان میں مزری، چمڑے، اون کے وسیع ذرائع ہیں جنہیں مارکیٹ سے لنک کرنے کی ضرورت ہے جبکہ بلوچستان میں کشیدہ کاری کے وسیع ذرائع ہیں جنہیں مارکیٹ تک لنک کرنے کی ضروروت ہے۔
بیساکیوں کے سہارے چلتا ہوا بلوچستان کا موجودہ ٹیکنیکل شعبے کو دست و بازو کی ضرورت ہے اسے علاج کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر چلنے کے قابل ہو سکے۔ ورنہ موجودہ حلیے کے ساتھ ہنرمند لوگوں کا پیدا کرنا محض ایک خواب ہوگا۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو مواقع کی کمی کا سامنا ہے۔ انہیں بہتر فنی تربیت دینے کے لئے بہتر ٹیکنیکل اداروں کی ضرورت ہے۔ وقت و حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت موجودہ مواقع کا باریک بینی سے جائزہ لیکر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ٹیکنیکل اداروں کا قیام عمل میں لائے اور جو ادارے اس وقت زمین پر موجود ہیں انہیں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرے۔ اگر آج اس سیکٹر پر توجہ نہیں دیا گیا تو کل گوادر پورٹ کی ٹیکنیکل شعبے کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے صوبے سے باہر کے لوگوں کو یہ کہہ کر تعینات کیا جائیگا کہ بلوچستان میں ہنرمند لوگ موجود ہی نہیں۔ سیاسی جماعتوں اور حکومتی نمائندوں کو اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ سی پیک کے لئے افرادی قوت بلوچستان سے ہی پیدا کرنے ہوں گے۔ جس کے لئے آنے والے بجٹ میں ٹیکنیکل شعبے کا بجٹ اگر پنجاب کی سطح پر تو نہیں کم از کم خیبر پختونخواہ کی بجٹ پر لا کر ٹیکنیکل اداروں کو مضبوط کیا جائے ۔اس کے لئے ابھی سے حکومت کو پالیسی مرتب کرنے اور اس پر عملدرآمد کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ کل کلاں یہ نہ ہو کہ بلوچستان والے ہاتھ ملتے رہ جائیں۔بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے روزگار کے وسیع مواقع موجود ہوں گے۔پر اسکے لئے موجودہ حکومت آئندہ کیا پالیسی اور لائحہ عمل تیار کرے گی۔ جسکا اندازہ مالی سال 2016-17کے لئے پیش کی جانے والی بجٹ میں اس شعبے کے لئے مختص کی جانے والی رقم سے بخوبی لگایا جا سکے گا۔