|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان میں ٹرانسپورٹرز نے اپنے مطالبات کے حق میں دس سے زائد مقامات پر اہم بین الاقوامی اور قومی شاہراہوں کو احتجاجا بند کردیاجس کے باعث قومی شاہراہوں کے دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ ہزاروں مسافر، خواتین، بچے اور مریض پھنس گئے۔ ٹرانسپورٹرز نے کمشنر کوئٹہ سے مذاکرات کامیاب ہونے پر اٹھارہ گھنٹوں بعد ہڑتال مؤخر کردی۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان یونائیٹڈ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے کوئٹہ کے شہری علاقوں سے بس اور ویگن اڈے ہزار گنجی منتقل کرنے اور وہاں سہولیات کی عدم دستیابی، قومی شاہراہوں پر جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر بلا جواز چیکنگ، قومی شاہراہوں کی خستہ حال صورتحال ، غیر قانونی طور پر پرمٹس کے اجراء سمیت چھ نکاتی مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف احتجاج کی کال تھی۔ اس احتجاج میں کوئٹہ کراچی کوچز یونین ، کوئٹہ تفتان ٹرانسپورٹ یونین، کوئٹہ سبی جیکب آباد ،مکران بیلٹ کے علاوہ صوبے کے شمالی علاقوں کے ٹرانسپورٹرز نے بھی حصہ لیا اور احتجاجا اپنی بسوں اورویگنوں کو کھڑا کرکے قومی شاہراہوں کو بند کردیا۔ bus strike 1ٹرانسپورٹرز نے پورے صوبے اور ملک کیلئے کوچز، بس ،ویگن اور ٹوڈی کار سروس معطل رکھی اور اپنے دفاتر کو بھی بند کردیا۔لکپاس، کولپور، دشت ، کچلاک اور نوشکی سمیت دس سے زائد مقامات پر احتجاج کے باعث کوئٹہ چمن ، کوئٹہ تفتان بین الاقوامی شاہراہوں کے علاوہ کوئٹہ جیکب آباداورکوئٹہ کراچی شاہراہیں ٹریفک کیلئے معطل ہوگئیں۔ اس طرح کوئٹہ سے اندرون بلوچستان کے علاوہ اندرو ن ملک سندھ، پنجاب اور خیبر پشتونخوا گاڑیوں کی آمدروفت معطل ہوگئیں۔ ان شاہراہوں کے دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں جس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں مسافرپھنس گئے۔ ان میں خواتین، بچے ، مریض اور باراتی بھی شامل تھے جنہیں شدید گرمی میں اٹھارہ گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا۔ویران مقامات پر شاہراہیں بند ہونے کے باعث پھنسے ہوئے مسافروں کو کھانے پینے سمیت کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ bus strike 2ٹرانسپورٹ یونین کے عہدے داروں عبداللہ کرد، نور محمد شاہوانی، اختر جان کاکڑ، حکمت لہڑی اور دیگر نے بتایا کہ بلوچستان میں ٹرانسپورٹرز کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت ان مشکلات اور مسائل کے حل میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ بس اڈے کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی منتقل کئے گئے جہاں مسافر محفوظ ہیں اور نہ ٹرانسپورٹرز۔دفتر،کھانے پینے، رہائش ، انتظار گاہ اور ہوٹل سمیت کوئی بھی سہولت بس اڈہ سے کئی کلو میٹر دور تک دستیاب نہیں۔ حکومت نے وعدوں کے باوجود بس اڈے کیلئے سہولیات فراہم نہیں کیں۔ جبکہ اندرون بلوچستان قومی شاہراہوں پر جگہ جگہ غیر ضرور ی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر تعینات پولیس، لیویز اور ایف سی اہلکاروں کا رویہ نا مناسب ہے اور وہ تلاشی اور اسمگلنگ کے نام پر مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کو تنگ کرتے ہیں۔ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا بہانہ بناکر مسافر بسوں کی اپنی فیول ٹینکیوں میں موجود تیل بھی نکال لیا جاتا ہے جو نا انصافی کی انتہاء ہے۔ مسافر بسوں کی کانوائے کی صورت میں آمدروفت کی پابندی لگائی گئی ہے جس پر ٹرانسپورٹرز کو تحفظات ہیں۔ اسی طرح مختلف روٹس پر ٹرانسپورٹرز کی جانب سے گاڑیوں کی آمدروفت کیلئے طے شدہ ٹائم ٹیبل کے خاتمے کی حکومتی کوششیں ہمیں قابل قبول نہیں۔ قومی شاہراہوں کی بہتری کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے۔ جبکہ ٹرانسپورٹرز کی مشاورت کے بغیر مختلف روٹس پر غیر ضروری اور غیر قانونی طریقے سے پرمٹس جاری کئے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو بار بار اپنے مطالبات پر عملدرآمد کیلئے مہلت دی لیکن وہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اس لئے ہڑتال جیسا انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔ دریں اثناء جمعرات کو سہ پہر کمشنر کوئٹہ کمبر دشتی اور ٹرانسپورٹرز رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے اور قومی شاہراہیں اٹھارہ گھنٹے بعد ٹریفک کیلئے کھول دی گئیں۔ کمشنر کوئٹہ نے ٹرانسپورٹرز کو مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ۔ اس سلسلے میں ایک ہفتے بعد کمشنر کوئٹہ اور ٹرانسپورٹرز کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔