|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2016

حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن کی جائے گی یعنی ان کو بھی افغان مہاجرین کا درجہ دیا جائے گا۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی کو قانونی طورپر جائز قرار دینے کی یہ ایک کوشش ہوگی اگر حکومت نے ان کے خلاف بھرپور اور فوری کارروائی نہیں کی۔ یہ طرز عمل نا قابل قبول ہے امید ہے کہ قوم پرست عناصر پاکستان بھر میں اس طرز عمل پر احتجاج کریں گے اور حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف فوری طورپر کارروائی کی جائے ان کی رجسٹریشن نہیں بلکہ ان کو گرفتار کرکے ملک بدر کیاجائے ۔ معلوم نہیں کیوں حکومت نے یہ فیصلہ کیاکہ غیر قانونی تارکین وطن کو رجسٹر کیاجائے حکومت اور اس کے تمام سیکورٹی اداروں کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ کتنے افغان ، بھارتی ، بنگالی اور دیگر ممالک کے شہری پاکستان میں غیر قانونی طورپر مقیم ہیں، یہ عوام کو یہ بھی بتایا جائے ابھی تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اپوزیشن کو چائیے کہ یہ مسئلہ بھرپور انداز میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں اٹھائے اور اس نا اہلی پرحکومت سے واضح جواب طلب کیا جائے بلکہ حکومت سے پوچھا جائے کہ اب تک تمام غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوئی ۔یہ معاشی مہاجر ہیں پاکستان ایک انتہائی غریب ملک ہے بلوچستان کی نصف آبادی کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہے ، لاکھوں پڑھے لکھے لوگ صرف بلوچستان میں بے روزگار ہیں، روزگار کے مواقع نہیں ہیں ،حکومت صنعتی ترقی کی ہمت افزائی نہیں کرتی بلکہ سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کررہی ہے کہ آپ کا سرمایہ بلوچستان میں محفوظ نہیں رہے گا۔یعنی حکومت ناکام ہوگئی ہے کہ وہ بلوچستان کے معاشی مشکلات کو کم کرے اور اس کو زیادہ تیز رفتاری سے ترقی دے ، الٹا وہ ان غیر ملکی تارکین وطن کی ہمت افزائی کررہی ہے کہ وہ یہاں رہیں پاکستان پر زبردست معاشی بوجھ بن جائیں ملک کی معیشت کو زیادہ تباہی کے دہانے لے جائیں ، سمگلنگ کریں، غیر قانونی کاروبار کریں، منشیات فروشی کریں ، جرائم میں شریک ہوں اور مقامی عوام کی زندگی تنگ کریں ۔بلوچستان میں غیر سرکاری ذرائع کے مطابق تیس لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں یہ افغان مہاجرین سے الگ ہیں یہ ہزاروں کی تعداد روزانہ بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان آتے ہیں اور معاشی مواقع تلاش کرتے ہیں حکومت خاموش ہے بلکہ افسران اس کوشش میں ہیں کہ ان کو قانونی جواز دیں کہ وہ یہاں رہیں اور اپنے آپ کو رجسٹر کریں۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کی سرگرمیوں سے بلوچ اور پختون دونوں نالاں ہیں اور سب یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان تمام مہاجرین کو گرفتار کیا جائے اور قانونی کارروائی کے بعدان کو ملک بدر کیاجائے۔ ان کی پاکستان میں موجودگی کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور حکومت بھی کوئی قانونی جواز تلاش نہ کرے کہ ان کو مقامی افراد پر مسلط کیاجائے اور روزگار کے محدود ترین ذرائع پر ان کے قبضہ کو دوام بخشے۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے افغانوں کی کالونی ہیں سندھ پر ہندوستانیوں ، بنگالیوں ، افغانوں اور برمی باشندوں کا قبضہ ہے یہ تمام غیر قانونی تارکین کو ریاست پاکستان کے بعض طاقت ور عناصر کی حمایت حاصل ہے جو ایک ناگوار بات ہے۔ بلوچ اور سندھی اقوام پر غیر ملکی لوگوں کو مسلط کیاگیا ہے اس کے کوئی شواہد اور اشارے نہیں مل رہے ہیں کہ ان غیر ملکیوں کو کبھی ملک بدر کیاجائے گا، پاکستان کے وسائل صرف او ر صرف پاکستانیوں کے لیے ہیں اور انہی پر خرچ ہونے چاہئیں ۔ حکومت کو چائیے کہ وہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے اور ان سب کو فوری طورپر ملک بدر کرے کیونکہ افغان قومی سلامتی کے لئے ایک زبردست خطرہ ہیں بعض ذرائع نے یہ تصدیق کی ہے کہ صرف پشاور اور اس کے قرب وجوار میں تین سو سے زیادہ افغان جاسوس موجود ہیں جوملکی سلامتی کو نقصان پہنچارہے ہیں پہلے ان سب کا پتہ لگایا جائے اور بعد میں گرفتار کیاجائے تاکہ پاکستان ایک زیادہ محفوظ ملک بن جائے۔ ملکی وسائل صرف اور صرف پاکستانیوں کے لئے مخصوص ہوں غیروں کے لیے نہیں۔