کوئٹہ: نیب کی بلوچستان میں کاروائیاں مزید تیز، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سابق چیئر مین بلوچستان پبلک سروس کمیشن اشرف مگسی اور دو ڈپٹی ڈائریکٹرز کو گرفتار کرلیا۔ سابق چیئرمین نے اقربا پروری کے تحت سرکاری نوکریوں کی اپنے ہی گھر والوں میں بندر بانٹ کی۔ میرٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے بیٹے، دو بیٹیوں سمیت ہزاروں نا اہل افراد کو غیر قانونی طور پر بھرتی کروا کے کروڑوں روپے بٹورے۔ترجمان نیب کے مطابق نیب نے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سابق چیئر مین بلوچستان پبلک سروس کمیشن اشرف مگسی اور دو ڈپٹی ڈائریکٹرز گرفتارکرلیا۔ اختیارات کے ناجائز استعمال اور معاونت کے الزام میں پبلک سروس کمیشن کے دو ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالوحید اور نیاز محمد کاکڑ کو گرفتاری کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔ ملزمان کے خلاف تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ریفرنس عدالت میں دائر کر دیا گیا۔ترجمان کے مطابق سابق چیئر مین بلوچستان پبلک سروس کمیشن محمد اشرف مگسی نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے جعلی ڈگریوں پر اپنی دو بیٹیوں اور ایک قریبی رشتہ دار کو پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں غیر قانونی طریقے سے امتیازی نمبردلا کر محکمہ تعلیم کی پوسٹ پر بھرتی کرایا تھا تاہم بوگس ڈگری ثابت ہونے پر اشرف مگسی کے دونوں بیٹیوں اور تیسری خاتون کو نوکری سے ہٹا دیا گیا۔ بوگس ڈگریوں کا انتظام محمد اشرف مگسی نے کیا تھا۔ محمد اشرف مگسی کے دور بطور چیئرمین بی پی ایس سی میں سیکشن آفیسرز کی پوسٹس کے امتحانات میں اشرف مگسی کا بیٹا اور عبدالوحید، ڈپٹی ڈائر یکڑ بی پی ایس سی کا بیٹا کامیاب قرار پائے تھے اور ان دونوں نے بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔نیب نے تحقیقات کا دائرہ کاروسیع کرتے ہوئے سابق چیئرمین اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے بیٹوں کے حل شدہ پیپر ز کی لیبارٹری ٹیسٹنگ کروائی تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیپرز کے ساتھ اضافی شیٹس لگائی گئیں جن پر دستخط بھی جعلی تھے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ دودنوں کی بھرتی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غلط طریقے سے کی گئی۔ترجمان کے مطابق ڈپٹی ڈائر یکٹر بلوچستان پبلک سروس کمیشن نیاز محمد کاکڑ نے اشرف مگسی اور عبدالوحید کی معاونت کی جس پر نیب نے تینوں ملزمان کے خلاف ریفرنس عدالت میں دائر کر دیا ہے جبکہ نیاز محمد کاکڑ ڈپٹی ڈائریکٹراور عبدالوحید ڈپٹی ڈائریکٹر بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو نیب نے گرفتار کرنے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ۔واضح رہے نیب بلوچستان نے پبلک سروس کمیشن میں بڑے پیمانے پر بد عنوانی کے حوالے سے لوگوں کی بے پناہ شکایات پرسال 2012ء میں تحقیقات شروع کی تھی۔ اشرف مگسی نے بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کورٹ میں نیب کی اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا جسکی وجہ سے تفتیش کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔ تاہم نیب کی سفارش پر صوبائی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے نیب کی تحقیقات کو دُرست تسیلم کرتے ہوئے اپنی سفارشات گورنر بلوچستان کو پیش کیں جس پر سابق چیئرمین کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ دریں اثنا سپر یم کورٹ کے نیب کے حق میں فیصلے کی روشنی میں تفتیش کو تیزی سے آگے بڑھا کر اشرف مگسی کو دیگر سہولت کاروں سمیت گرفتار کر لیا۔ مزید تحقیقات جاری ہے۔دریں اثناء نیب بلوچستان نے معطل سیکرٹری خزانہ سے تفتیش کی روشنی میں ان کے دو مبینہ سہولت کاروں کو کوئٹہ اورکراچی سے گرفتار کرلیا۔ مچھ میں تحصیل میونسل آفس پر بھی چھاپہ مار ا تاہم ترقیاتی فنڈز کا ریکارڈ اور عملہ دونوں غائب تھا ۔ اعلیٰ سیاسی شخصیات ، بیوروکریٹس ، سرکاری آفسران اور منی چینجرز کے خلاف بھی تحقیقاتی عمل جاری ہے۔ ترجمان نیب بلوچستان کے مطابق چار روز قبل گرفتار ہونے سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق احمد رئیسانی سے تفتیش میں پیشرفت ہوئی ہے۔ محکمہ خزانہ، محکمہ مواصلات و تعمیرات، محکمہ بلدیات سمیت مختلف محکموں کے ریکارڈ اور مشتاق رئیسانی سے تفتیش کی روشنی میں حاصل ہونے والی معلومات پر نیب نے کوئٹہ، کراچی اور مچھ میں کئی مقامات پر چھاپے مارے ۔ کوئٹہ میں چھاپے کے دوران محکمہ مواصلات و تعمیرات قلات کے ایکسین طارق علی کو گرفتار کرلیا گیا ۔ ابتدائی تفتیش کے بعد انہیں احتساب عدالت کوئٹہ مجید ناصر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے نیب کے پراسکیوٹر کے راشد زیب گولڑہ کے دلائل کی روشنی میں ملزم کو پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔ محکمہ تعمیرات ومواصلات کے ایکسین طا رق علی جو لوکل گورنمنٹ میں اسسٹنٹ انجینئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔جبکہ اسی مقدمے میں ایک ٹھیکیدار سہیل مجید کو کراچی سے حراست میں لیا گیا ۔ انہیں کراچی کے علاقے ڈیفنس سے نیب کراچی کی ٹیم اور پولیس کی مدد سے گرفتار کیا گیا اور منگل کو انہیں کوئٹہ منتقل کرکے نیب کے حوالے کئے جانے کا امکان ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق مشتاق احمد رئیسانی نے محکمہ بلدیات اور سالانہ ترقیاتی پروگراموں کے فنڈز میں اربوں روپے کی خورد برد کی تھی اور محکمہ بلدیات کے تیس سے زائد اضلا ع کیلئے مختص ڈیڑھ ارب روپے کی نوے فیصد سے زائد رقم صرف مچھ اور خالق آباد منگچر کی تحصیلوں کو مختص کی گئی۔ یہ رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے مختلف طریقوں سے خورد برد کی گئی اور اس میں متعلقہ محکموں کے مقامی افسران نے مشتاق احمد رئیسانی کی مدد کی تھی۔ پیر کو گرفتار ہونے والے دونوں ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے سرکاری فنڈز کے خورد برد میں مشتاق رئیسانی کی مدد کی تھی۔ ادھر نیب کوئٹہ کی ٹیم نے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد صابر خان اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فائق کی قیادت میں ایف سی اور پولیس تھانہ صدر مچھ کے ایس ایچ او کے ہمراہ مچھ کے تحصیل میونسپل �آفس پر بھی چھاپہ مارا اور پانچ گھنٹوں سے زائد تک ریکارڈ کی چھان بین کی۔ نیب کو 2012سے لیکر2014ء تک کا مچھ تحصیل کے ترقیاتی فنڈز کا ریکارڈ درکار تھا تاہم چھان بین کے باوجود ریکارڈ نہیں ملا جبکہ تحصیل میونسپل آ فیسر اور کلرک سمیت دیگر عملہ بھی دفترسے غائب تھا۔ چھاپے کے وقت صرف وائس چیئرمین مچھ میونسپل کمیٹی مولوی عبدالصمد موجود تھے نیب نے ان کا بیان ریکارڈ کرلیا۔ جبکہ تین رجسٹرڈ سمیت دیگر متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد علیٰ سیاسی شخصیات ، بیوروکریٹس ، سرکاری آفسران اور منی چینجرز کے خلاف تحقیقاتی عمل جاری ہے اور آئندہ چند روز میں بلوچستان کے کئی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی گرفتاریاں متوقع ہیں ۔ سابق دورحکومت کے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو بھی شامل تفتیش کیے جانے کا امکان ہے ۔