|

وقتِ اشاعت :   May 10 – 2016

حب : حبکو پاور پروجیکٹ کی انتظامیہ دعوے تو بڑے کر رہے ہیں کہ سماجی کاموں میں بڑھ چھڑ کر حصہ لے رہے ہیں مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ سب سے پہلے آتے ہیں حبکو انتظامیہ کے دعوں کی طرف جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے حبکو کی جانب سے ایک پرائیوٹ اسکول ٹی سی ایف کے نام سے بنایا ہے جہاں وہ قرب جوار کے بچوں کو تعلیم مہیا کر رہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی اٹھارہ اسکول ایسے ہیں جو سرکاری ہیں اور حبکو ان کی فنڈنگ کر رہی ہے ۔ لیکن جب سروے کیا گیا تو یہ دعوے صرف دکھاوے کی حد تک دکھائی دیں ٹی سی ایف اسکول کے حوالے سے علاقے کے کونسلر غلام رسول گدور و معززین کا کہنا ہے کے ہمارے علاقے کے بچے اس اسکول میں نہیں پڑھتے کیونکہ حبکو انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو انگلش آنی چاہئے تب جاکر ہم انہیں اسکول میں داخلہ دے سکیں گے ۔ اب حبکو سے کوئی پوچھے کے بلوچستان کے پسماندہ علاقے میں ٹی سی ایف اسکول کھول کر وہ کونسے بچے تلاش کر رہے ہیں جنہیں انگلش آتی ہے ۔ کیا حبکو نے ڈیفنس جیسے علاقے میں اسکول کھولا ہے یا پھر کنڈ گڈانی جیسے پسماندہ علاقے میں اسکول کھولا ہے ۔ اب حال ہی میں اسی اسکول کو توسیع دیا گیا بڑی پروقار تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ لیکن اگر سروے میں دیکھا جائے اور علاقے کے لوگوں سے سنا جائے تو کوئی اس اسکول سے خوش نہیں کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ غریب ضرور ہیں لیکن وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اس اسکول میں تعلیم حاصل کریں لیکن حبکو کہ عجیب شرط سے وہ پریشان ہیں ۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی اپنے ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا اگر اسکول انتظامیہ اور حبکو چاہے تو ان کے بچے بھی اچھی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ اسے چراغ تلے اندھیرے کا نام نہ دیں تو اور کیا کہیں ۔ اب آتے ہیں دوسرے دعوے کی طرف جہاں حبکو کا کہنا ہے کہ وہ اٹھارہ سرکاری اسکولوں کو فنڈنگ کر رہے ہیں ۔ جبکہ سروے کے دوران جب آزادی نے علاقے کے ڈی ڈی او رفیق بلوچ سے گفتگو کیا تو اس نے کہا کہ کئی سالوں سے اسے یاد نہیں کہ حبکو نے کوئی فنڈگ کی ہو بلکہ عالم تو یہ ہے الانہ گوٹھ کا پرائمری اسکول جو کہ حبکو کے بالکل ساتھ ہی واقع گوٹھ میں ہے ۔اس اسکول کے حوالے سے بہت بار میٹنگ کی کے کچھ سہولیات فراہم کی جائیں لیکن صرف گفتا نشتا کی حد تک رہی ۔ حبکو کی جانب سے صحافیوں کو بریفینگ دی گئی تو یوں محسوس ہوا کہ گویا حبکو نے علاقے کو جنت نظیر بنا دیا ہے ۔ اور اسی بریفنگ میں سرکاری اسکولوں کو فنڈنگ کا دعوع کیا گیا لیکن جب علاقے کا سروے کیا گیا تو وہ بریفنگ صرف خواب کی حد تک دکھائی دیا ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ علاقے میں حبکو پاور پروجیکٹ کو قائم ہوے بیس سال سے زائد عرصہ ہوا ہے اور حبکو ایک اہم بجلی گھر کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن حبکو کے ساتھ ہی واقع گوٹھوں میں غریب عوام اب بھی لالٹین والی دور کی زندگی گزار رہے ہیں اسے ہم چراغ تلے اندھیرا نہ کہیں تواور کیا کہیں ۔ حبکو اکثر و بیشتر اپنے پریس بریفنگ میں تعلیم کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے لیکن علاقے کے کئی اسکول ایسے ہیں جو کے حبکو کے بغل میں واقع ہیں وہاں بچے آج بھی آزادی پاکستان کے وقت جیسے اسکولوں کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ پانی کا فقدان اسکولوں کے بچوں کو کتابیں اٹھاتے ہوئے کم دیکھا جاسکتا ہے لیکن گیلن اٹھائے پانی کی تلاش میں زیادہ نظر آتے ہیں ایک بچے سے جب بات ہوئی تو اس کا کہنا تھا کے اسکول میں تعلیم کے دوران انہیں سخت پیاس لگتی ہے جس کے لئے وہ اپنے پانی کا بندوبست خود کرتے ہیں اور اکثر پانی تلاش کرتے کرتے اسکول میں تعلیم کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔حبکو انتظامیہ شاید سمجھتی ہے کے ائیرکنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر ہم جو بھی بریفینگ دیں تو دنیا کو یقین آئے گا لیکن حقیقت کی تلاش نے آزادی کو کئی سچ دکھا دئے ۔ حبکو روڈ کے اوپر ہی ایک ادارہ ہے ٹیکنکل ٹریننگ سینٹر جو کے طلباء کو ہنر مند بنا کر حبکو جیسے ہی اداروں میں جگہ دینے کے قابل بناتا ہے لیکن اس ادارے کا حال دیکھیں تو یہ ادارہ اپنی جگہ بھی نہیں بنا پارہا ہے ۔ عالیشاں عمارت موجود ہے ۔ مشینری موجود ہے لیکن پانی ، نہیں بجلی نہیں ٹرانسپورٹ نہیں غرض اس ادارے کو مسائلستان کا نام دیں تو غلط نہ ہوگا ۔ حبکو کا کہنا ہے ہمارے ادارے میں ٹیکنیکل بچوں کی اکثر ضرورت ہوتی ہے جو کہ علاقے میں نہیں ملتیں کوئی حبکو سے پوچھے کے یہ ادارا جو آپ کے تمام زمہ داران کے راستے میں آتا ہے جسے وہ تقریبا روز دیکھ کے اندیکھا کر دیتے ہیں اس ادارے کے لئے کیا کام کیا ہے ۔ جہاں بچے ہنر مند ہو کر روزگار پے لگ سکیں ۔ حبکو کا نام بہت بڑا ہے اس میں کوئی شق نہیں لیکن ان تمام سروے میں ہم صرف یہی اخذ کر سکتے ہیں کے حبکو کے نام کے ساتھ ساتھ حبکو کے دعوے بھی بہت بڑے ہیں جو دنیا کو بے وقوف بنانے کے لئے وہ استعمال کرتے ہیں۔چراغ تلے اندھیرے کی کیا بات کریں ۔ حبکو کا کہنا ہے کے وہ بہادر خان یونیورسٹی کو اسکالر شپ کے مد میں فنڈنگ کر رہی ہے جو کہ کوئٹہ میں ہے ۔ ہم نہیں کہتے ہیں کے وہاں فنڈنگ نہ کرے لیکن لسبیلہ میں قائم یہ صنعت لسبیلہ کے یونیورسٹی( لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچرل واٹر اینڈ میرین سائنس) میں کیونکر کوئی کام نہیں کر رہی ہے شاید حبکو کو ڈر ہے کہ جیسے دیگر ان کے دعووں کی طرح لسبیلہ یونیورسٹی کے نام سے وہ دعوے کریں گے تو علاقے کے صحافی اس کا بھی پول کھول لیں گے ۔اب علاقے کے یونیورسٹی کو چھوڑ کر کوئٹہ کے یونیورسٹی کو فنڈنگ کرنے کو ہم اور کس نظریے سے دیکھیں ۔