|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2016

بلو چستان پسماندہ کیوں ہے کے وجوہات جا ننا ضروری ہے جب تک وجوہات معلوم نہیں ہونگی پسماندگی کیسے دور کی جا سکے گی۔بلو چستان شروع سے ملک کا پسماندہ صوبہ رہا ہے ۔طا لب علمی کے زمانے میں ہرسال یہی اعلان ہوتا تھا کہ صوبے کا بجٹ خسارہ مر کز پورا کرے گا،جس سے بڑی کوفت ہوتی تھی ۔آج بھی بلو چستان ویسے ہی پسماندہ ہے،گو کہ کچھ سڑکیں بنی ہیں لیکن لوگوں کی حالت نہیں بدلی۔پشتون اضلاع ماسوائے موسیٰ خیل اور شیرانی کے بہتر زراعت اور چمن بارڈرکے کاروبار کی بناء نسبتاً خوشحال ہیں۔بلوچ اضلاع قدرتی دولت ،سمندر اور بارڈر کے باوجود غربت کا شکار ہیں ۔ما ضی اور موجودہ شورش کی وجوہات میں سے غربت اور پسماندگی ایک بنیادی وجہ ہے۔ ایک سیمینار سے خطاب کر تے ہوئے جنرل راحیل شریف نے صوبے میں جاری بے چینی کاتجزیہ یوں کیا’’پسماندگی ، بے انتہا غربت،تعلیم اور صحت کے سہولیات کی دگرگوں صورتحال اور خوفناک بیروزگاری نے ملکر بلو چستان میں علیحدگی کی تحریک کو بڑھاوادیا۔ ‘‘ (General Raheel Shareef pointed out, ” a lack of development, wide spread poverty, poor education and medical care facilities, as well as rampant unemplyoment have all gone to lend support to the separatist movement in Balochistan). ۔ دنیا میں کہیں بھی جب نا انصا فیاں ،غربت ،بیروز گاری اور پسماندگی انتہا کو پہنچتی ہے تولوگ عموماً قانون ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ایک جا ئزہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں بلوچ آبادی کی 80 فیصدغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ UNDکی 2013 ؁ کے رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی کے ہر میدان میں بلوچستان آخری نمبر پر ہے۔ اب بھی صوبے کی 80%آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جہاں فیمیل لٹریسی ریٹ 2%سے کم ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی کئی علاقوں کی بلوچ خواتین میلوں دور پانی لانے پر مجبور ہیں، کہتے ہیں ایسے خواتین کی آدھی زندگی پینے کاپانی جمع کر نے میں صرف ہو تی ہے۔ آخربلوچستان اتنا پسماندہ اور لوگ اتنے غریب کیوں ہیں اسکا تجزیہ ضروری ہے تاکہ مداوا ممکن ہو سکے ۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک بلو چستان میں بر سر اقتدارآنے والی تمام حکومتیں ، ماسوائے دو تین کے جو 3-4سال اقتدار میں رہی ہونگی ،اسلام آباد کی مدد اور منشا سے اقتدار میں آئیں اور اکثر اوقات مر کز میں حکمران پارٹی بلو چستان میں بھی اپنی حکومت بنا نے میں کا میاب رہی۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ اسلام آباد میں برسر اقتدارچاہے سویلین ہوں یا فوجی ہمیشہ سے بلو چستان آکر یہ جملہ ضرور دہراتے ہیں کہ ’’ماضی میں بلوچستان (بلوچوں )کے ساتھ جو نا انصا فیاں ہوئیں اب انکا ازالہ کیا جائیگا۔‘‘یہاں تک کہ دو،تین سربراہوں نے ماضی کی غلطیوں اورنا انصا فیوں پر کوئٹہ آکر معافی بھی مانگی۔برُی حکمرانی (Bad Governance) کے علاوہ پسماندگی اور غربت کی دوسری بڑی وجوہات میں بلو چستان کے قدرتی وسائل میں سے اسکے حصے کی چوری یا انکار ، نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ ،مرکزی محکموں میں بلوچستان کا کو ٹہ اور روزگار کے مواقعوں کے فقدان کایہا ں مختصر جا ئزہ لیں گے۔ (1) سوئی گیس:۔ یہ گیس ڈیرہ بگٹی کے علاقہ سوئی سے1952 ؁میں دریافت ہوئی۔کل ذخیرہ 8ٹریلین کیوبک فیٹ تھا، 1992 ؁ تک 7ٹریلین گیس استعمال ہوا۔جسکے بدلے بلوچستان کو ایک پیسہ بھی نہ مل سکا۔ 1992 ؁ سے گیس رائیلٹی اس طرح صوبوں کوملنی شروع ہوئی،پنجاب 240روپے،سندھ 125روپے اور بلو چستان 30روپے فی ہزار مکعب فٹ۔بلو چستان کی گیس دوسرے صوبوں کی گیس کے نسبت اچھی کوالٹی کی ہے اور بہت سستی پڑتی ہے لیکن پھر بھی بلو چستان کو را ئیلٹی پنجاب کی نسبت 8گناکم ملتاہے آخر کیوں؟۔مر کزی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں اگر ہمیں پوری رائیلٹی(پنجاب کے برابر)مل جائے تو ترقیاتی کاموں کے لیئے کافی رقم دستیاب ہوگی۔اس کے علاوہ مر کزی خزانہ میں ہر سال بلو چستان سے گیس ریوینیوکی مد میں ، 1.4بلین امریکی ڈالر(1400ملین ڈالر)جمع ہوتے ہیں،جبکہ بلوچستان کو صرف 116ملین ڈالر ملتے ہیں۔مزید یہ کہ UNDPکی رپورٹ 2013 ؁کے مطابق ڈیرہ بگٹی جہاں سے یہ گیس نکالی جا رہی ہے ملک کے محروم اضلا ع کی فہرست میں آخری نمبرپر ہے۔اب ضلع کے دوسرے علاقوں سے بھی گیس نکل رہی ہے۔ (2) سیندک پرو جیکٹ:۔بلوچستان کے ایک سابق سینیٹرحسین بخش بنگلزئی (مرحوم )کہتے تھے ’’سیندک پرو جیکٹ پر جلد کام شروع ہونے والا ہے پھر بلوچستان میں بچے سونے چاندی سے کھیلیں گے۔‘‘سیندک میں چینی کمپنی 2002 ؁ سے کام کر رہی ہے ،سیندک کا کل تخمینہ 412ملین ٹن ہے،جس میں فی ٹن 0.5کلوسونا 1.5کلو چاندی اور باقی تانبا ہے۔اور 2002 ؁ سے سالانہ 1.5ٹن سونا ،2.8ٹن چاندی اور 15800ٹن تانبا نکا لا جارہا ہے۔اسطرح گزشتہ 14سال میں 21ٹن سونا،39.2ٹن چاندی اور221200ٹن تانبا نکالا جاچکا ہے۔ایک ٹن میں 1016کلو ہوتے ہیں۔سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کے بقول۔ ’’سیندک پروجیکٹ سے بلو چستان کو سالانہ ایک پر چون فروش دکاندار کی آمدن سے بھی کم رقم ملتی ہے۔‘‘ ٍٍ (3) ماہی گیری :۔سمندر بلوچوں کی سب سے بڑی دولت ہے کیو نکہ اس کے وسائل کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ کوسٹل بیلٹ میں ماہی گیری کے شعبہ سے تقریباً 80% لوگ وابستہ ہیں، سالانہ 124000میٹرک ٹن مچھلی پکڑی جاتی ہے ۔ پروسسنگ اور پیکنگ کی سہولت کے نہ ہونے کے سبب غریب مچھیرے اپنی کمائی کراچی کے سیٹھوں کو اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر مچھیروں کو جدید سہولیات دی جائیں اور پروسسنگ پیکنگ کا بھی جدید انتظام میسر ہو تو سالانہ 3-4ارب امریکی ڈالرکی آمدنی ہو سکتی ہے ۔مزید یہ کہ اسوقت سیٹھوں کے باریک جالوں والے بڑے ٹرالر وں کے سبب ،جنکا استعمال دنیا میں غیر قا نونی ہے ،مچھلیوں کے بچے،انڈے اور اس گھاس پوس جہاں مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے تباہی کا شکار ہیں ۔ اسطرح کے جالوں اور غیر قانونی ٹرالنگ سے قیمتی مچھلیوں کی نسل معدوم ہورہی ہے اور ماہی گیر فاقہ کشی اور بیروزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔ (4) نیشنل فنانس کمیشن(NFC) ایوارڈ :۔ پاکستان میں اس ایوارڈکی تقسیم، 82% آبادی، 10.3%غربت ، 2.5%ریوینیو جنریشن ، 2.5%ریوینیو کو لکشن ، اور 2.3%رقبے کی بنیاد پرہورہی ہے ۔ہندو ستان میں اس ایوارڈ کا صرف 17%آبادی پر ہے۔مشرقی پاکستان اور ون یونٹ کے زمانے میں اس ایوارڈ کی تقسیم رقبہ کی بنیاد پرہوتی تھی اسطرح بلو چستان کو ملا کر مغربی پاکستان کا رقبہ مشرقی پاکستان سے بہت زیادہ تھا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعداسکی تقسیم واپس آبادی پر کردی گئی۔رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا45%ہے اور آبادی 5%ہے۔ ظاہر ہے 2.3%رقم سے اتنے بڑے رقبہ کی ترقی ممکن نہیں،اس سلوک سے بلو چستان ہمیشہ پسماندہ ہی رہے گا۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں حبکو اور اوچ پاور پلانٹوں سے بجلی کی کل پیداوار 2400MWہے، جبکہ بلوچستان کی ضرورت 1600MWہے،اور اسے صرف 700MWبجلی مل رہی ہے۔ضرورت کے مطابق بجلی نہ ملنے سے صوبے میں زراعت، گھریلو اور صنعتی شعبے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھی کینال جس سے علاقے میں غربت اور بیروزگاری کا خا تمہ ممکن ہے مکمل ہونے کا نام نہیں لیتی ۔پہلی ، اب دوسری نسل اسکا انتظار کر رہی ہے۔ مرکزی محکموں کے ملازمین میں صوبے کے کوٹہ پر کوششوں اور وعدوں کے باوجود مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔صوبے میں چھوٹی بڑی انڈ سٹری جو لگ سکتی ہیں اور ان سے جو روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں،جیسے اون،چمڑا، کھجور، سیب اورمچھلی وغیرہ پرتوجہ نہیں دی جارہی۔حب انڈسٹریل زون کے ملازمین کراچی سے آتے ہیں اور کام کر کے واپس کراچی چلے جا تے ہیں ۔تعلیمی پسماندگی کے کئی وجوہ ہیں سب سے اہم وجہ دوسرے محکموں کی طرح اس محکمہ میں بھی نگرانی(Supervision)اورجواب دہی کا فقدان ہے دوسری بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے ۔ مزید یہ کہ بلو چستان کی یونیورسٹیوں کو جو رقم ہائر ایجو کیشن کمیشن سے ملتی ہے وہ ملا کراسلام آبادکی ایک یونیورسٹی نیسٹ (NEST)کو ملنے والی آدھی رقم سے بھی کم ہے۔بلو چستان کی پسماندگی کی بہت سی وجوہات میں سے یہ چند اہم ہیں۔