صحبت پور : جعفرآباد کے ہیڈ کوارٹر ہسپتال جو کہ دو ضلعوں کے مریضوں کا علاج کیلئے ہے مگر حکومت کی عدم توجہ اور اسپیشل ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے مسائل سے دو چار ہیں ضلع میں ہیڈ کورٹر کے ہوتے ہوئے حادثہ کی صورت میں ایمر جنسی صرف نام کے ہیں مگر ان کا کام صفر ہے اور اسی طرح دیرہ اللہ یار کے ہیڈ کورٹر ہسپتال میں ایم ایس جو کہ دیا گیا وہ قابل تعریف ہیں اور ایم ایس خود بے بس کے عالم من عملہ کی من مانیاں عروج پر مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور ایم ایس خود مریضوں کو دیکھتے رہتے ہیں سروے رپورٹ کے مطابق اورمریضوں سے لئی گئی رپورٹ کے مطا بق ہیڈ کوارٹر ہسپتال حکومت کی طر ف بنایا گیا مگر صرف نام کے اور ایمرجنسی کے وارڈ بنائے گئے صرف وہ بھی دیکھنے کیلئے کیونکہ کسی حادثے کی صورت میں یا قدرتی سانحہ میں مریضوں کو بر وقت ریفر کیا جاتا ہے اور وہ راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہے حکومت یا اور کوئی کیونکہ ضلع جعفرآباد کاہیڈ کوارٹر ہسپتال جو کہ بنایا گیا عوام کو سہولیات دینے کیلئے مگر وہ بھی نہ ہونے کے برابر کیونکہ بلوچستان ایک امیرصوبہ کے ہوتے ہوئے مگر پھر بھی عوام کیلئے عذاب کے علاوہ کچھ نہیں علاج کیلئے کئی لوگ کوسوں دور سے علاج کیلئے آتے ہیں مگر ہسپتال کے عملہ ان لوگوں کو بیٹھا بیٹھا کر ان کے کوسوں دورکے لوگ مجبور ہو کر گھر چلے جاتے ہیں جس سے ان کے لائیہوئے مریض آہو پکار کر اور ڈاکٹر کی بے رخی سے غریب لوگ واپس چلے جاتے ہیں کیا ہر بار بلوچستان کے مریض سندھ کے علاقے جیکب آباد اور لاڑکانہ لے جایا جائے گا کیا بلوچستان میں کوئی ڈاکٹر نہیں جو کہ ان مریضوں کا علاج کروا سکے مگر علاج ممکن ہے حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے غریب لوگوں کا علاج نہیں ہو پاتا اور وہ عطائی ڈاکٹروں کے بید چڑھ جاتے ہیں جس سے یہی داکٹر منو مانگا رقم بٹورتے ہیں اسی طرح جب سے یہ ایم ایس آیا لوگوں میں خوشی پایا جاتا ہے مگر ایک اکیلا ہزاروں کے مریض کو وہ کیا علاج کر سکیں گے کیونکہ عملہ کی لاپرواہی اور ایم ایس کے مجبور سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے مریض ہی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور شام تک انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ اس کا باری آئے مگر عوام کا کمائی ہوئی جمع پونچی رقم جو کہ ٹیکس کی صورت میں دیتی ہے تا کہ ان تیکس سے ڈاکٹر کو تنخواہ ملے اور یہی ڈاکٹر حضرات عوام کا علاج کراسکیں مگر جعفرآباد میں ہسپتال ہے اور آئے ہوئے مریضوں کو بغیر کسی چیکب کے دوائی فراہم کی جاتی ہے کیونکہ ان ڈاکٹر حضرات کے پاس جوکہ پارہ بھی نہیں ہوتا تا کہ کسی کا صحیح علاج ہو سکے ہسپتال میں مریض آئے اور ان کے ہاتح میں پرچی نما کاغز تھمایا جاتا ہے اور وہ مریض جو کہ کوسوں دور سے آئے ہوئے علاج کیلئے کہ ان کا اچھا علاج ہو مگر علاج تو اپنی جگہ ایک ہاتھ ان کاہتھ میں ہاتھ رکھ کرد وائی کا گاغز تمایا جاتا ہے اور وہ مریض جوکہ ایک اچھے علاج کروانے کاخواب دیکھ کر آتے ہیں تاکہ اس غربت میں مفت علاج ہو سکے مگر کیا دوائی اور دو گولیاں ہاتھ میں تما یا جاتا ہے اور گھر چلے جاتے ہیں ادویات کا وافر مقدار میں ہونا اور مریض کو کوئی سہولیات نہیں تو وہ ایم این اے ہو یا ایم پی اے کا کیافائدہ جو کہ غریب کا علاج نہ ہونا اور ہسپتال میں اسپیشل ڈاکٹر کا نہ ہونا یہ حکومت کیلئے سوالیہ نشان ہے کیونکہ ووت کے زریعے ایم این اے ہو یا ایم پی اے جو کہ ایوانوں مین جاکر ان غریبوں کیلئے ہر وقت آواز کو بلند کرنا ہے مگر افسوس ہے کہ صوبہ بلوچستان کا ضلع جعفرآباد اور صحبت پور مین ایک چھوٹے سے چھوٹے بیماری کیلئے لوگوں کو تکیف کے علاوہ اور کچھ نہیں تو بچا کچا ہوا یہ عطائی ڈاکٹر ان غریبوں کا خون چوس لیتے ہیں اگر حکومت کی نام کی ہے تو اس ہیڈ کورٹر ہسپتال جعفرآباد کا ہے اس کو ایسے بنایا جائے کہ مسی مریض کو باہر ہی نہ لے جایا جائے اور اسے اپنے صوبے اور ضلعے میں سہولیات ہو کہ ان کا علاج ہو سکے اور اس میں بڑے سے بڑے ڈاکٹر ہو ں اور ڈاکٹروں کیلئے رائش ہو تو تب ہی ممکن ہے وہ ضلعے میں اسپیشل ڈاکٹر ہوں گے اور امراض سے کلب ہو یا دماغی مریض ہو یا اور اس کا علاج انھے اپنے ضلع میں ہو اور جانے کی کوئی ضرورت نہ ہو کیونکہ جعفرآباد میں دو وزیراعضم اور دو اسپیکر اور کئیم وزرا بنے مگر صرف نام کے عوام کو وہی تقدیر میں لکھا ہے دربد کی ٹھوکریں اور کچھ نہیں جس صوبے میں خوشحالی اائے گی وہ تب تک خوشحال صوبہ کہلائے گا جب ہمارے لیڈراں عوام کی بھلائی کیلئے کچھ کریں گے اور ہسپتال کیلئے کچھ سوچیں گے اور بڑے سے برے ڈاکٹر اس وقت آئیں گے جب ایم این اے یا ایم پی اے یہ سہولیات دیں گے تو ضلعے مین مریض کا واقعی علاج ہو سکے گا ۔