|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2016

صدیق بلوچ روزنامہ ’آزادی‘ اور انگریزی اخبار ’بلوچستان ایکسپریس ‘کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ 40سال سے زائد صحافتی کیریئر رکھنے والے صدیق بلوچ بلوچستان کی سیاست اور معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔بلوچستانی سیاست اور معیشت پر ان کی ایک کتاب “Balochistan Its Politics and Economics” نام سے ہے۔ ’حال حوال‘ نے بلوچستان کے موجودہ بجٹ اور بلوچستان کی معیشت پر ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ آئیے ملاحظہ کرتے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست اور معیشت پرآپ کی گہری نظر ہے۔ بلوچستان کا جو موجودہ بجٹ ہے، اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ صدیق بلوچ: پہلے سے تو بہترہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس حکومت نے یہاں میگاپروجیکٹ شروع کیے ہیں۔ وہ بھی دباو میں آکر۔ پچھلے 30سال سے ایم پی اے فنڈ ضائع ہو رہا ہے۔ہر سال 60,70ارب روپے ضائع ہو رہے ہیں۔اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔ اس مرتبہ یہ حکومت پریشر میں آئی ۔ تبدیلی لائی اور کچھ پیسے کم کیے ہیں۔جس پر پشتونخواہ والوں نے شور مچایا کہ فوجی بجٹ کے معاملے میں ہم کو نہیں چھوڑتے۔اور حکم پر چلاتے ہیں۔عثمان کاکڑ کا بیان بھی اخبار میں چھپا ہے۔تو اس کا اشارہ فوجیوں کی طرف تھاکہ ان کا پریشر ہے حالاںکہ عوام کا پریشر زیادہ ہے۔کرپشن اتنی ہوئی ہے کہ پیسے گھروں کو چلے گئے۔ ظلم یہ ہے کہ ایک مالی سال میں صرف ایک ایم پی اے نے 1ارب 80کروڑ روپے خرچ کیے ہیں،ایک طاقت ور ایم پی اے نے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ گیا کہاں۔ اس کا عام آدمی کی زندگی پر کتنا اثر پڑا۔ کتنے لوگوں کو روزگار ملا۔اگر اتنا ہی پیسے مجھے دے دیتے تو میں ٹیکسٹائل مل لگاتا۔سیکڑوں اسپینڈ مل لگاتا۔کئی ہزار لوگوں کو روزگار دیتا۔اور سالانہ چار پانچ کروڑ منافع بھی کماتا۔تو یہ اتنی بڑی رقم ایک آدمی نے سال میں ہڑپ کر لی۔بنیادی بات یہ ہے کہ اس پر قدغن لگائیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پہ خرچ ہونی چاہئے، کسی کی ذاتی اسکیم پر نہیں۔نہ ایم پی اے اور نہ ہی وزرا کی۔ حال حوال: موجودہ اور سابقہ بجٹ میں کتنا فرق دیکھ رہے ہیں؟ صدیق بلوچ:پچھلے اور موجودہ بجٹ میں فرق یہ ہے کہ میگا پروجیکٹس شروع کیے گئے ہیں۔ عوامی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔نئے بجٹ میں یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔یہ تو آگے چل کر پتہ چل جائے گا۔میں نے آپ کو بتایا کہ پرانا جو بجٹ تھا اس میںہر ایک ایم پی اے اور وزرا کا شیئر 50کروڑ سے لے کر 1ارب 80کروڑ تک ہوا کرتا تھا۔ وہ سسٹم ہی غلط تھا۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عوام، فوجی اور سیاسی لوگوں کے دباو میں آکر …. یہ جو کرپشن اسکینڈل سامنے آیا ، اس کے بعد انہوں نے کسی حد تک اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔ اب ان کو تھوڑا ہوش آگیا ہے کہ جب تک کرپشن بند نہیں ہوگی، لوگوں کو اس کے فوائد نہیں ملیں گے۔یہ بجٹ اس لحاظ سے سابقہ بجٹ سے بہتر ہے۔یہ پہلی کوشش ہے۔ آگے دیکھتے ہیں کہ اثر کیا ہوتا ہے۔بہرحال شروعات اچھی کہی جا سکتی ہے۔ کرپشن کی آپ نے بات کی ،بلوچستان میں بالعموم کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے۔ کیاخالد لانگو اور سیکرٹری خزانہ کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں کرپشن کا عمل رک جائے گا؟ صدیق بلوچ: نہیں۔جو خوف کی فضا پیدا کر دی گئی ہے ،اس سے کرپشن میںکمی ضرور آئے گی۔ میں اس واقعے کے بعد جب سیکرٹریٹ گیا (ہنستے ہوئے) تو سارے کے سارے آفیسران پریشان تھے۔سب نے دفتری کام چھوڑ دیے تھےکہ اب کس کی باری آئے گی اور کون گرفتار ہوگا۔تو یہ خوف تو موجود ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہاں مسئلہ گڈ اور بیڈ کا ہے، اچھا سپاہی اور برا سپاہی۔برے سپاہی کو پکڑتے ہیں ،اچھے سپاہی کو چھوڑتے ہیں۔یہ گڈ اور بیڈ کا مسئلہ چلتا رہتا ہے۔اب جتنے بھی کیسز ہیں ،معصوم لوگ جیل میں ہیں۔اور جو بڑے بڑے مجرم ہیں، انہیں نیب والوں نے گواہ بنا دیا۔ابھی آپ نے پچھلے دنوں دیکھا ہوگا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ہماری 2011-12کی گندم فصل خراب ہوگئی۔اس کو ہم چارہ کے طور پر جانوروں کو دے دیں گے۔حالاںکہ دیکھا جائے تو گندم ہے ہی نہیں۔وہ سارے کا سارا ڈائریکٹر اور مافیا بیچ کھا گئے۔ اب اس ریکارڈ کو برابر کرنے کے لیے یہ ڈرامہ انہوں نے رچا لیا۔اگر دیکھا جائے تو یہ بڑا اسکینڈل ہے،لیکن وہی مافیا ہے اور یہ مافیا اتنا طاقت ور ہے کہ وزیر خوراک کو تبدیل کر دیتا ہے۔وزیر خوراک گڑ گڑا کر معافی مانگتا ہے، پھر اس کو بحال کر دیا جاتا ہے۔کرپشن کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں۔ بلوچستان میں ہر سال بجٹ منظور ہو تا ہے لیکن اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے ، نہ ڈویلپمنٹ سیکٹر پر یہ خرچ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔مسئلہ کہاں دیکھتے ہیں؟ صدیق بلوچ: دیکھیں 30سال کا جو تذکرہ میں نے کیا تھا ،وہ یوں ہوا تھا کہ ضیا الحق نے 1985کو غیر سیاسی انتخابات کرائے۔ اس میں سارے ڈھکن چور بھرتی ہوگئے۔پورے پاکستان میں ساری بڑی سیاسی پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ تو جو یہ لوگ تھے انہیں کھڑا کردیا گیا۔وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا۔جنرل ضیا نے ان تمام ایم پی ایز کو ایم پی اے اسکیم کا لالچ دے کر مسلم لیگی بنا دیا۔پورا پاکستان ہی مسلم لیگ میں چلا گیا۔1985میں طاقت ور پارٹی مسلم لیگ ہی بن گئی۔ سب کو فنڈ دیے گئے۔ اسی کے بعد سیاست تجارت بن گئی۔ آپ انتخابات میں ملین خرچ کریں اور منتخب ہونے کے بعد بلین کمائیں۔ کروڑوں خرچ کریں اور اربوں کمائیں ۔ اب آپ بلوچستان کی مثال لیں ۔یہاں ہر ایم پی اے کے پاس پچاس پچاس کروڑ، ایک ایک ارب سالانہ فنڈز ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ میںنواب رئیسانی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مولانا واسع آیا۔کہا،این ایف سی ایوارڈ آچکا ہے تو ہر ایم پی اے کو پچاس پچاس کروڑ روپے یے جائیں۔ وہ وہاں دھرنا دےکر بیٹھ گیا کہ جب تک نہیں مانو گے ،میں نہیں جاوںگا۔اس کو ماننا پڑا۔پچھلے این ایف سی ایوارڈ سے یہ سلسلہ پچاس پچاس کروڑ سے شروع ہوا تھا۔اب ارب سے اوپر تک جاچکا ہے۔بجٹ بھی اب پچاس ، ساٹھ ارب تک پہنچ گیا ۔پہلے تو دو ارب روپے تھا۔اس کی جو بنیادی وجہ ہے ،وہ یہ ہے کہ 1970کے الیکشن میں سردار عطا اللہ مینگل کی پارٹی دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیت گئی۔ وہ وزیراعلیٰ بنا۔اب ان کے لیے(اسٹیبلشمنٹ کے لیے) مشکل ہوگئی۔پھر تو باقاعدہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی کو اکثریت میں آنے نہیں دیا جائے گا۔ بعد میں جتنے بھی وزیراعلیٰ بنے، سب اقلیتی وزیراعلیٰ ۔دس نشست والے، پانچ نشست والے،تو یہ سارا کچھ نظر آرہا ہوتا ہے کہ ایک وزیراعلیٰ اپنی پوزیشن بچانے کے لیے کون کون سے جتن نہیں کرتا۔دوسری جماعتوں کو خوش رکھتے ہیں۔اب جو ہے بلیک میلنگ پاور یا تو ملا کے پاس ہے یا تو پشتونخواہ کے پاس۔انہوں نے پریشر گروپ بنائے ہیں۔پہلے تو مولانا واسع کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اب انہوں نے دو ارب کا مدرسہ بنالیا ہے۔اصل وجہ یہ ہے۔ بلوچستان میں سابقہ دور میں ایسی حکومتیں جن کا نام آپ بتائیں کہ انہوں نے بلوچستان کے ڈویلپمنٹ سیکٹر میں حقیقی معنوں میں کام کیا تھا؟ صدیق بلوچ: دو گزرے ہیں؛اختر مینگل اور نواب اکبر بگٹی۔ان دونوں کے دور میں ان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔وزرا نے کیا ہوگا…. لیکن ان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ جو تھوڑی بہت رقم تھی وہ انہوں نے اس سیکٹر پر خرچ کی اور کرپشن ہونے نہیں دی۔عطا اللہ مینگل کے دور میں تو کافی کام ہوا۔یونیورسٹی بنائی۔ بولان میڈیکل کالج، اور بہت سارے پروجیکٹس لانچ کیے۔ٹیکسٹائل ملز وغیرہ۔اس کے بعد پھر جتنی بھی حکومتیں بنیں ،ان میں یہ کام سست پڑ گئے۔ بلوچستان کی جو ثقافت ہے، اسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ موجودہ بجٹ میں بھی اس شعبے کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟ صدیق بلوچ: دیکھیں بات یہ ہے کہ جو سب سے بڑا ادارہ ہے ؛وہ ہے لائیو اسٹاک ۔اس کا شیئر صوبائی معیشت میں 48فیصد ہے۔جو گائے اور بھینس پالا جاتا ہے۔دوسرے نمبر پر ایگریکلچر ہے۔تیسرا فشریز اور چوتھا مائننگ۔تو ان اداروں کے لیے ان کے پاس صرف تنخواہیں بانٹنے کے لیے پیسہ ہوتا ہے۔ثقافت کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس پہ بجٹ مختص کریں۔حج میں قربانی ہوتی ہے ۔30لاکھ آدمی حج پہ جاتے ہیں۔ایک ایک دو دو بکرے قربان کرتے ہیں۔آپ کے پاس اتنی کیپسٹی ہے کہ آپ سارا کا سارا مال وہاں بھیجیں ،پیسے کمائیں۔اس کو آرگنائیز کریں۔ بھیڑ ،بلڈنگ اور گائے فارمنگ جو کر رہے ہیں۔یہ نزدیک بھی پڑتا ہے، گوادر سے گلف ممالک کو پہنچانا ہے۔باقی سڑکوں کے ذریعے اسے مکہ تک وہ وہیں سے پہنچائیں گے۔تو یہ اتنا بڑا پوٹینشل ہے۔گائے بھینس، بھیڑ، بکرے ، دودھ، دہی، مکھن،ڈیری فارم…. یہ سارا کا سارا سیکٹر آگے آئے گا اور اس کاا شیئر 60فیصد ہو جائے گا۔ یہ ان اداروں کو نظرانداز کرتے ہیں اور پیسے نہیں دیتے۔یہ ڈیپارٹمنٹ صرف تنخواہیں بانٹنے کے لیے ہوتے ہیں۔لائیواسٹاک، فشریز ، منرل ریسورسز کے لیے چند کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔کام کے ڈیپارٹمنٹ یہی چار ہیں۔باقی سڑک، بلدنگ جہاں سے کمیشن ملتا ہے تو وہاں اس کے لیے شوقیہ طور پر بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر بلوچستان کا بجٹ جس کا اعلان ہر سال کیا جاتا ہے، اگر یہ صحیح معنوں میں خرچ کیاجائے تو بلوچستان کی معاشی حالت میں تبدیلی آنے کا امکان پیدا ہو گا؟ صدیق بلوچ: ہاں بہت تبدیلی آئے گی۔یہ جو 70بلین ہے ،اس کے صرف کارخانے لگا دو۔دو لاکھ افراد کو ایک سال میں ملازمت مل جائے گی۔دو سال میں بے روزگاری ختم ہوجائے گی۔اگر انہی پیسوں سے ڈیم بنائے جائیں۔ایک سال میںدو کروڑ ایکڑ زمین آپ کی آباد ہو جائے گی۔یعنی وہ کسی کو دینا نہیں ہے یا یہ کہیں کہ ہم نے یہ پیسے واٹر ریسورسز کے لیے رکھے ہیں ،ڈیم بنانے ہیں۔ ایک سال کا پیسہ فشریز پہ لگاو۔اس سے آپ 6، 7 ارب ڈالر فارن ایکسچینج کماو۔ایگریکلچر دو کروڑ ایکڑ زمین آباد ہو جائے گی…. صرف مکران ڈویژن میں 360دریا بہتے ہیں۔وہاں صرف ایک ڈیم بنا ہوا ہے، عوام کے ہلا گلا کے بعد۔قسمت بدلنے میں صرف پانچ سال ہی لگیں گے۔ ایک سال پانی ریسورسز، ایک سال میں انڈسٹرلائزیشن، ایک سال میں روڑ کمیونی کیشن، ایک سال میں فشریز۔ 20لاکھ آدمیوں کو ملازمت دیں۔لیکن نہ وہ سپرٹ موجود ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی اور نہ ہی کمٹمنٹ۔ یہ کام تو ایک revolutionaryآدمی ہی کر سکتا ہے۔جو شخص الیکشن میں دس لاکھ روپے خرچ کرکے دس ارب کمانے کے چکر میں آئے گا ،وہ تو نہیں کرے گا نا۔ بلوچستان کی ترقی میں حائل رکاوٹ کے عوامل کون سے ہیں ۔ کیاپاک چائنا اکنامک کوریڈور سے بلوچستان کی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں مدد ملے گی؟ صدیق بلوچ: بنیادی طور پرتو بڑا مسئلہ کرپشن ہے ۔ دوسرااکنامک پلاننگ نیم خواندہ لوگوں کے پاس ہے۔اکنامک پلاننگ ایم پی اے کرتا ہے۔ یہ اسکیم، وہ اسکیم اور پیسہ کھاتا ہے۔یہ بھی تو کیا جا سکتا ہے کہ انہیں فورس کیا جائے کہ یہ کام نہ کریں۔کوریڈور کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔چینی آئے ہیں ۔انہوں نے سرمایہ کاری کی ہے، پنجاب میں۔سرمایہ کاری اس لیے کی ہے کہ وہاں پر انفراسٹرکچر ، ٹرینڈ لیبر، بجلی، روڑ، کارخانے وغیرہ ، ہر قسم کی سہولت پہلے سے موجود ہے۔انہوں نے انوسٹمنٹ وہیں پر کی ہے۔فرنٹیر اور بلوچستان میں کچھ بھی نہیں ہے۔دوسری بات ان کی غرض پیسہ کمانے سے ہے۔ یہاں پر یہ صرف پورٹ کے ٹھیکہ دار ہیں۔اس کو پورٹ چلانا ہے۔ اس کے آگے پیچھے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ انڈسٹریز زون بنائیں گے۔ابھی تک تو انہوں نے زمین الاٹ نہیں کی ہے۔پینے کو پانی نہیں ہے،بجلی نہیں ہے۔اس کے مقابلے میں چابہار میں دو اسٹیل مل لگ رہی ہیں ۔ ایک اسٹیل مل جو کہ جاپان کی ہے، 20لاکھ ٹن پیدا کرے گی۔ دو سری کوریا کی ہے، وہ 16لاکھ ٹن پیدا کرے گا۔دونوں کل ملا کر 36لاکھ ٹن پیدا کریں گے۔اور کراچی کی مل صرف ایک لاکھ ٹن کی ہے، جس پر کتنا بڑا شور مچتا ہے۔جاپانی آئے اور پہلے ہی دن انہوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔اسی دن زمین کے پیسے بھی ادا کر دیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بہت ہی اعلیٰ کوالٹی کا اسٹیل پڑا ہوا ہے۔جب کہ یوریا کا پلانٹ انڈیا لگا رہا ہے۔یعنی اس سے انڈیا سالانہ 4ارب روپے کی سبسڈی بچائے گا۔ اتنا بڑا پلانٹ ہے۔آپ کے پاس پینے کو پانی نہیں ہے۔اس سے کیامقابلہ کریں گے۔گوادر کے مقابلے میں وہ پورٹ چھوٹا ہے لیکن انہوں نے وہاں ہر طرح کی سہولیات مہیا کی ہوئی ہیں۔ابھی انڈیا 800ملین ڈالر خرچ کرکے پورٹ بنا رہا ہے۔بنیادی طور پر بلوچستان کی ترقی میں اس کوریڈور کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہوگی تو اس کے لیے انہیں کراچی ہے، وہ گوادر کو کیوں استعمال کریں۔ وہاں سے تو حویلیاں تک یہ جدید ریل چلائیں گے ۔ یہاں پر کوئی سہولت ہی نہیں بنی ہے۔نہ ہوٹل ہے رہنے کے لیے اور نہ کھانے کا کوئی خاص انتظام۔کسی چیز کا کوئی انتظام نہیں ہے۔اس کا جو تعلق ہے وہ گلف ممالک اور ایشیا کے ساتھ ہے۔ویسٹرن روٹ، ایسٹرن روٹ یہ سب بے کار قسم کی باتیں ہیں۔دریجی سے جو ہائی وے گزر رہا ہے، وہیں سے لنک کرکے بتائیں گے کہ کوریڈور مکمل ہے۔
بشکر یہ حال حوال اور شبیررخشانی