|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2016

کوئٹہ : کرپشن کیس میں گرفتار سیکرٹری فنانس سیکرٹری مشتاق رئیسانی کا میگا کرپشن سے متعلق بیان سامنے آگیا، روزنامہ آزادی کو ملنے والے تحریری بیان میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے گھر سے ملنے والے رقوم ایڈمنسٹر یٹر خالق آباد سلیم شاہ نے امانتاً رکھوائی ، لوکل گورنمنٹ اور سی اینڈ ڈبلیو کے ضابطے کے مطابق فنڈز جاری کئے فنڈز کیسے خرچ ہوئے نگرانی وذمہ داری میری نہیں تھی، فنڈز کے اجراء کیلئے مشیر خزانہ خالد لانگو نے احکامات جاری کئے تھے ، نیب حکام مرضی کا بیان حاصل کر نے کیلئے ذہنی وجسمانی دباؤ ڈال رہے ہیں۔مشتاق رئیسانی نے یہ تما م تفصیلات ایک خط کے ذریعے اپنے وکیل کو فراہم کی ہیں۔مشتاق رئیسانی نے اپنے وکیل کو مشاورت کیلئے لکھے گئے بیان میں الزام لگایا ہے کہ نیب کے تفتیش کار مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ میں یہ بیان دوں کہ میں نے یہ رقم ڈویلپمنٹ اسکیموں سے حاصل کی ہے جو کہ تقریباً نصف ارب روپے ہے۔لیکن حقیقت میں میں نے کسی سے رقم نہیں لی۔ اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے مجھے رقم ادا کی ہے۔ میں نے اپنے جدائیداد سے متعلق پہلے ہی تحریر ی طور پر وضاحت کردی ہے اور فنڈز کا اجراء معمول کاعمل ہے اور اس عمل کا آسانی سے دفاع کیا جاسکتا ہے۔ مشتاق رئیسانی نے اپنے وکیل کو بتایا ہے کہ ان پر تین الزامات عائد کئے گئے ہیں ،رقم کی برآمدگی ،میونسپل کمیٹی خالق آباد منگچر اور مچھ میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کیلئے فنڈز کا اجراء کا ۔نیب حکام دعویٰ کررہے ہیں کہ یہاں سے ایک ارب یا اس کا نصف ملا ہے بشمول ڈالرز،سونا، لیپ ٹاپ اور پاکستانی کرنسی،تاہم جو کرنسی برآمد ہوئی ہے وہ دو حصوں میں تقسیم ہے ۔پاکستانی کرنسی اور ڈالرز یہ تمام چیف آفیسر میونسپل کمیٹی خالق آبادسلیم شاہ کی ملکیت ہے جو اس نے دو سے تین اقساط میں رواں سال مارچ میں میرے پاس امانتا رکھوائی جس پر میں اسے منع نہیں کرسکا ۔سلیم شاہ نے مجھے بتایا کہ وہ پانچ کمپنیوں کا مالک ہے اور تمام رجسٹرڈ ہیں اور وہ ٹیکس ریٹرن بھی جمع کراتا ہے اور اس کے کاروبار قانونی اور جائز ہے ۔ سلیم شاہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے بیٹے کو اکتوبر2014ء کو ان کے گھر واقع گرین ٹاؤن کوئٹہ سے نامعلوم افراد نے کار سے اتار کر اغواء کیا تھا۔ سلیم شاہ کا کہنا تھا کہ تین کروڑ روپے کے تاوان کی ادائیگی کے بعد اس کے بیٹے کی بازیابی ممکن ہوئی۔ اس لئے اس نے اپنی فیملی کو کراچی میں بخاری پارک کے قریب واقع اپنے بنگلے میں منتقل کردیا ہے۔اور اس کا رئیل اسٹیٹ ، بلڈنگز کی تعمیرات کا بزنس ہے۔ اس نے بتایا کہ گلشن جانان کوئٹہ میں اس نے اپنا بنگلہ بنایا ہے اور وہ مکمل ہونے والا ہے اس لئے وہ یہ رقم امانت کے طور پر یہاں رکھوانا چاہتے ہیں اور رمضان سے قبل یہ رقم ضرور لے جائیں گے۔ سلیم شاہ نے دعویٰ کیا کہ گرین ٹاؤن میں اس کا گھر محفوظ نہیں کیونکہ اس کا ایک حصہ سبزل روڈ سے لگتا ہے اور ہمیشہ چوری و ڈکیتی کا خوف رہتا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اغواء کے ڈر کی وجہ سے اپنے اکاؤنٹ میں رقم نہیں رکھ سکتا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کی کمپنیاں کے پاس سرکاری اور نجی اسکیم ہیں۔ سلیم شاہ نے بتایا کہ وہ اپنے بینک کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم غیر ملکی کرنسی اور ڈالر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ نوٹوں کی تعداد کو کم کیا جاسکے۔ سلیم شاہ نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ یہ رقم اس نے خالق آباد کیلئے جاری ہونیوالے ترقیاتی فنڈز سے غبن کی ہے۔ رقم کے دوسرا حصہ جو(پانچ ہزار ڈالر اور 10لاکھ روپے کے پرائز بانڈ ز،500ملین پاکستانی کرنسی )پر مشتمل ہے سب سلیم شاہ کی ملکیت ہیں جبکہ زیورات میری اہلیہ کے کے ہیں ۔مشتاق رئیسانی نے اپنے جائیداد کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انکی تفصیلات بارے تما م دستاویزات چھاپے کے دوران نیب نے اپنی تحویل میں لے لئے ہیں۔ مشتاق رئیسانی نے اپنے وکیل کو بتایا ہے کہ اس نے1984میں بی بی زیارت ٹاؤن میں پچاس ہزار روپے کی رقم سے پانچ سو مربع فٹ کا پلاٹ خریدااور یہ رقم پانچ پانچ ہزار کے دس قسطوں کے ذریعے ادا کی۔ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے درست تاریخ یاد نہیں۔ اور اسی پلاٹ کوانیس سو ستاسی اٹھاسی میں اسے پانچ لاکھ میں فروخت کیا۔1993ء میں ڈبل روڈ ارباب ٹاؤن میں آٹھ لاکھ کا گھر خریدا جسے 1994ء میں 12لاکھ پچاس ہزار روپے میں فروخت کیا۔پانچ ہزار مربع فٹ کا ایک پلاٹ شراکت داری سے اے ون سٹی میں خریدااور پانچ لاکھ روپے کی رقم اقساط کے ذریعے ادا کی۔ بعد میں پچاس فیصد شیئر ڈھائی لاکھ روپے میں فروخت کردیئے۔ سات ہزار پانچ سو مربع فٹ کا ایک پلاٹ 9لاکھ75ہزار روپے کا خریدا اور 7500ہزار کی 130قسطوں کے ذریعے رقم ادا کی۔ 1994۔95ء میں ہاؤس بلڈنگ ایڈوانس، کار ایڈوانس لیکر 2001گھر کی تعمیر کو مکمل کیااور اسے اسی سال ایک کروڑ45لاکھ روپے میں فروخت کیا۔ پھر 2001ء میں چھ لاکھ پچاس ہزار روپے کی لاگت سے 1070مربع فٹ کا گھر اے ون سٹی میں خریدا اور 2013ء میں 23لاکھ روپے کا فروخت کیا۔ پھر 2007ء میں اے ون سٹی کوئٹہ میں دس ہزار مربع فٹ کا پلاٹ23لاکھ میں خریدا اور 2012ء میں 70لاکھ روپے میں فروخت کیا۔ اسی طرح 2011یا2012ء میں سروے144ء میں 800گز کا پلاٹ ایک کروڑ43لاکھ روپے کا خریدا اور 2013ء میں4کروڑ روپے کا فروخت کردیا۔ 40ہزار روپے کا پرائز بانڈ جیتا جس کے ذریعے7کروڑ روپے ملے لیکن اس پرائز بانڈ کو بینک کی بجائے فوری طور پر اوپن مارکیٹ سے کیش کرایا کیونکہ مجھے مدرسہ روڈ کے پلاٹ کی ادائیگی کرنی تھی۔ 2013ء میں مدرسہ روڈ پر چھ کروڑ روپے کا پلاٹ خریدا۔ جس کی ادائیگی سروے144کی فروخت سے حاصل ہونیوالی چار کروڑ روپے کے ذریعے کی گئی۔ لیکن اس کی اونر شپ اور پاور آف اٹارنی اب تک منتقل نہیں ہوئی۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں500گز کا پلاٹ سلیم شاہ کی شراکت سے88لاکھ روپے میں خریدا۔ اس میں چار کروڑ روپے سلیم شاہ نے ادا کئے۔ اس پلاٹ کا قبضہ سلیم شاہ اور اس کے ٹھیکیدار کے پاس ہے تاکہ اسے منافع پر دوبارہ فروخت کیا جاسکے۔ نومبر یا دسمبر2012میں 13لاکھ روپے کی لاگت سے 2007ماڈل کی Toyota Priusگاڑی اپنے نام پر خریدی 2015میں 23لاکھ روپے سے بھتیجے کیلئے گاڑی خریدی جس نے اب تک13لاکھ روپے مجھے دیئے ہیں۔ 65لاکھ روپے کی مرسڈیز کارسے متعلق مشتاق رئیسانی نے بتایا ہے کہ میں نے سلیم شاہ کو کہا کہ گاڑی خریدنی ہے بیس لاکھ روپے کی رینج تک کی گاڑی ڈھونڈ کے دیجئے۔ اس کے ایک ہفتے بعد سلیم شاہ نے بتایا کہ اس نے اپنے لئے ایک مرسڈیز گاڑی خریدی ہے لیکن یہ خوبصورت نہیں ہے۔ میں نے اپنے رشتہ دار عابد کی شناختی کارڈ کی کاپی دی تاکہ اس کے نام پر ٹرانسفر کرے۔اس نے مجھے رقم کی ادائیگی نہیں کی بلکہ یہ میری چوائس نہیں تھی۔ گاڑی ایک چابی کے ساتھ سلیم شاہ کے قبضے میں ہے جس طرح پانچ سو گز کا پلاٹ سلیم شاہ اور اس کے بلڈر کے قبضے میں ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2010ء کے تحت LCGCکے نام سے ایک باڈی ہے جس کے سربراہ وزیر خزانہ ہوتے ہیں اور سیکریٹری بلدیات، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری بلوچستان لوکل گورنمنٹ بورڈ اور پی اینڈ ڈی کا نمائندہ شامل ہوتا ہے۔ خالد لانگو وزیراعلیٰ کے مشیر خزانہ بنے تو انہوں نے اس کمیٹی کی سربراہی کی۔ مشیر خزانہ نے اس کیلئے 6ارب43کروڑ روپے کی رقم مختص کی جو کہ تنخواہوں، آپریشنل بجٹ، ڈیتھ کمپلسیشن پنشن، میونسپل کمیٹیوں کے علاقوں میں عمارات اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت ،کچرہ اٹھانا ، فائر بریگیڈ ، ڈویلپمنٹ اسکیم کو میونسپل فیسیلٹیز پر خرچ ہونے تھے۔میرے سیکریٹری خزانہ بننے سے قبل اس کمیٹی کا اجلاس کبھی نہیں بلایا گیا اور محکمہ خزانہ یہ رقم شارٹ فال کے نام پر تفصیلات دیئے بغیر جاری کرتا تھا۔مشتاق رئیسانی نے بیان میں کہا کہ جاری کردہ فنڈز دیکھنے کی ذمہ داری متعلقہ سیکرٹری اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر د کا تھا، میونسپل کمیٹی خالق آباد کو 2015میں اپ گریڈ کیاگیا، خالد لانگو نے کہا کہ علاقے میں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے فنڈز جاری کرنی چاہئے، خالد لانگو نے چیئرمین ایل سی ڈی سی کی حیثیت سے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دی ، لوکل گورنمنٹ ایل سی ڈی سی ممبر کی حیثیت سے معلومات اور اونر شپ رکھتا ہے، سڑکوں اور عمارات کی تعمیر کیلئے رقم سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے مطالبے پر وزیراعلیٰ چیف سیکرٹری اور متعلقہ حکام کے احکامات پر جاری کئے ،خالق آباد بجٹ میں اضافی رقم سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ اور مشیر خزانہ کے درخواست پر جاری کئے، سی اینڈ ڈبلوی ڈیپارٹمنٹ ترقیاتی کاموں کی پیشرفت کی نگرانی خالد لانگو پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ایکسین سی اینڈ ڈبلیو اس کے ذمہ دار تھے، اپنی گرفتاری سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے چھ مئی صبح 7:45گھر سے گرفتار کیاگیا، گرفتاری کے فوراً بعد مجھے لاک اپ میں منتقل کیا گیا، میرے ہاتھ باندھے گئے ، نیب آفیسران نے مجھے ڈرایا دھمکایااور مجھ پرتھرڈ ڈگری کا تشدد کیاگیا ،نیب حکام مجھے سننے کیلئے تیار نہیں تھے، جبکہ ایک آفیسر دو کانسٹیبل ڈنڈوں کے ساتھ لاک اپ میں داخل ہوا اور انہوں نے کانسٹیبلوں کو مجھ پر تشدد کا حکم دیا