کراچی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے پاکستان پر الزامات کو ‘زیادتی’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جتنا کام پاکستان نے کیا کسی اور ملک نے نہیں کیا، لیکن اس جنگ میں پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
جرمنی کے شہر برلن میں جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیوں کے باوجود ‘ڈومور’ کا مطالبہ کرنا امتیازی سلوک ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ دنیا کی طرف سے پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے کہ پاکستان کو سپورٹ نہیں کیا گیا اوراس کے موقف کو سمجھا نہیں گیا۔’
‘انڈیا سے خراب تعلقات کی واحد وجہ مسئلہ کشمیر ہے’
عاصم باجوہ نے ہندوستان کے ساتھ حالات ٹھیک نہ ہونے کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کو قرار دیا۔
ساتھ ہی اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت دی گئی تو یہ امتیازی سلوک ہوگا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 12 مئی کو ہندوستان کی درخواست کے بعد پاکستان نے 19 مئی کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست جمع کرائی تھی۔
امریکا، ہندوستان کی این ایس جی رکنیت کا حامی ہے، تاہم ہندوستان کو چین کی مخالفت کا سامنا ہے اور اس نے ہندوستان کی شمولیت کو خطے کے امن و استحکام کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، چین کا موقف ہندوستان کی رکنیت سے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا مقابلہ شروع ہوجائے گا۔
چین اپنے قریبی دوست پاکستان کو 48 رکنی گروپ میں شامل کرنے کا حامی ہے، چین چاہتا ہے کہ اگر ہندوستان کو این پی ٹی (نان پرولفریشن ٹریٹی) سے استثنیٰ دے کر جوہری کلب میں شامل کیا جاسکتا ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں، اس کا موقف ہے کہ دونوں ممالک کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہوئے این ایس جی کی رکنیت دی جانی چاہیئے۔
پاک-افغان کشیدگی اور امریکی ڈرون حملہ
افغانستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے حوالے سے آئی ایس پی آر ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کا برادر ملک ہے اور پاک-افغان سرحد پرفائرنگ کا تبادلہ ہوا لیکن اس حوالے سے بات چیت ہورہی ہے اور ابھی بارڈر مینجمنٹ کا کام جاری ہے۔
بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے حوالے سے جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے گذشتہ ماہ 21 مئی کو پاک افغان سرحدی علاقے میں کیے گئے ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم علاقے کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی، دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ ڈرون حملہ بلوچستان میں کیا گیا، جو ’ریڈ لائن‘ کی خلاف ورزی ہے۔
آپریشن ضرب عضب
انٹرویو کے دوران آپریشن ضرب عضب سے متعلق بات کرتے ہوئے آئی ایس ہی آر ترجمان نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں بلاتفریق آپریشن کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ پہلے فوج نے شمالی وزیرستان اور پھر خیبر ایجنسی میں آپریشن کیا اور اس کے بعد پاکستان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر 18 ہزار آپریشن کیے گئے، جن کے دوران 240 دہشت گرد مارے گئے۔
آپریشن کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کے حوالے سے جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ 62 فیصد آئی ڈی پیز کی واپسی ہوچکی ہے اور اُن کی واپسی کاعمل رواں سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اوراورکزئی ایجنسی سمیت سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا، بعد ازاں خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور ‘خیبر ٹو’ کے تحت سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا،جن کا اب اختتام ہوچکا ہے۔
جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مزید تیزی آگئی ہے۔