|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2016

پنجگور میں بے موسمی سیاست عروج کو پہنچنے کے بعد ٹھنڈا پڑگیا ۔بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی نے ایک دوسرے کے جلسوں کا جواب جلسے کرکے دیا اور ایک دوسرے کو لتاڑنے کے لیے کوئی بھی موقع ضائع نہیں کیا ۔پنجگور میں سیاسی ماحول میں اچانک تیزی آنے سے عوام بھی خوب لطف اندوز ہوئے اور ان کے بگڑے تمام کام ٹھیک ہوگئے جو کسی طرح نظر انداز تھے۔ پنجگور جو دو حلقوں پی بی 42اور پی بی43میں منقسم ہے 2008کے جنرل الیکشن میں دونوں نشستیں بی این پی عوامی کے حصے میں گئیں ۔پی بی 42سے میر غلام جان بلوچ جبکہ پی بی 43سے میر اسد اللہ بلوچ منتخب ہوگئے ۔میر اسداللہ بلوچ کو زراعت اور میر غلام جان بلوچ کو ماحولیات کی وزارتیں ملیں مگر بدقسمتی سے ان دونوں کے درمیاں معمولی اختلافات کا خمیازہ پنجگور کو بھگتنا پڑا اور ماحولیات کی وزارت پنجگور سے کیچ منتقل ہوگئی اور محکمہ کی بیشتر ملازمتیں جو پنجگور کو ملنے والی تھیں وہ مختلف اضلاع میں چلی گئیں تاہم زراعت کی وزارت پنجگور کے لیے انتہاہی زرخیز رہی اور میر اسداللہ بلوچ نے مختلف علاقوں میں زرعی تحقیقاتی مراکز قائم کرکے لاتعداد نوجوانوں کو روز گار فراہم کیا اور ان کی طرف سے اگائے گئے یہ درخت صدیوں تک علاقے کے لوگوں کو سایہ اور پھل فراہم کرتے رہیں گے ۔پنجگور کی سیاست میں جو خاص بات ہے وہ ذاتیات ہے اور جب بھی کسی جماعت کو عوام میں جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے مخالف کے شجرہ نصب کو سامنے رکھتا ہے اور عوام بھی اس قسم کی سیاست کے عادی ہوچکے ہیں اس طرح کی باتیں سنے بغیر انھیں سکون نہیں ملتا ۔پنجگور میں اس وقت بے شمار مسائل موجود ہیں اور نیشنل پارٹی کو ایک اہم موقع ملا ہے اور دونوں حلقوں سے ان کی نمائندگی موجود ہے پی بی 42سے میر رحمت صالح اور 43سے حاجی محمد اسلام بلوچ ہیں اور وزارت صحت جیسی اہم وزارت بھی انکے پاس ہے او ر ضلعی چیرمین شپ دونوں میونسپل کمٹیوں کے چیئرمین بھی نیشنل پارٹی کے ہیں ان کے لیے ایک شاندار موقع ہے کہ وہ بھی بی این پی عوامی کی طرح کچھ کرکے دکھائے۔ اگر بی این پی عوامی نے زراعت میں دل کھول کر لوگوں کو روزگار دلایا تو آج نیشنل پارٹی بھی مختلف علاقوں میں ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرکے روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرسکتا ہے اور ڈسٹرکٹ ہیڈکورٹر ہسپتال کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرکے ہسپتال کی تمام ضروریات پوری کریں اور دیگر اہم سرکاری محکموں میں موجود آسامیوں کو مشتہر کرکے پر کریں تاکہ لوگوں کے لیے روزگار کی نئی راہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی کارکردگی بھی مزید بہتر ہوسکے ۔موسمی سیاست سے تو ان لوگوں کا ہمیشہ زیادہ فائدہ رہتا ہے جو مال غنیمت کو دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں آجکل پنجگور کی سیاست بھی اس رخ پر چل پڑی ہے لوگ آج ادھر تو کل ادھر والی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکے ہیں ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ ذاتی فائدہ اٹھاوں اجتماعی مسائل ان کی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے ۔اسکول، ہسپتال، روڈ، پینے کا صاف پانی کے لیے وہ کیوں کسی کی منت سماجت کریں۔ انھیں تو صرف ایک سولر چیف انجن اور ایک بور سے واسطہ ہے اور یہ انھیں مل جائیں تو ان کے سارے بگڑے کام ٹھیک ہوجائیں گے ورنہ راستہ الگ اور وفاداریوں کے لیے کوئی سرٹیفکیٹ درکنار نہیں ہوتی۔ مخالف جماعتیں ایک آدھ پریس کانفرنس کرکے میر صاحب کی شان میں چار چاند لگا دیتے ہیں کہ موصوف نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ حقیقی سوچ وفکر سے اتفاق کرکے مستقبل کی سیاست کے لیے درخشاں باب کا اضافہ کیا ہے جس سے نہ صرف علاقے کی سیاست کا رخ مڑے گا بلکہ شعور ایماندار ی کی بھی جیت ہے ۔بی این پی عوامی کی طرح نیشنل پارٹی کے بھی دونوں ایم پی ایز کی کنڈلیاں آپس میں نہیں مل رہی ہیں ایک پیج پر نہ ہونے کی وجہ سے اجتماعی نقصان ہورہا ہے اگر وہ بالغ نظری کا مظاہرہ کریں تو اس کا فائدہ خود ان کی اپنی جماعت ہوگا اور اس کے مثبت اثرات علاقے کی اجتماعی ترقی پر بھی ہونگے ۔بحرحال یہ انکے اپنے مسائل ہیں اور وہ خود بہتر جانتے ہیں کہ اپنے معاملات کس طرح ڈیل کریں رہی بات پنجگور کی ترقی کی میں سمجھتا ہوں کہ پنجگور کا معاشرہ کافی زوال کی طرف جا چکا ہے علمی ادارے کسمپرسی سے دوچار ہیں ،لوگوں کو تعلیمی اداروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہا، بیشتر سرکاری اسکولوں میں سائینس کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی ہے ریاضی صرف نام کی حد تک ان اسکولوں میں موجود ہے اور خصوصا دیہی علاقوں میں معاملات انتہاہی گھمبیر ہیں ۔سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اور بچیاں مایوسی سے دوچار ہیں انھیں پڑھنے کے لیے مکمل درسی کتب تک میسر نہیں ۔لیڈر تو کہتے ہیں کہ یہ دور علم وہنر کا دور ہے ہمیں چائیے کہ ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دیں اور مستقبل میں ترقی کے ثمرات میں حصہ دار بن سکیں مگر افسوس کہ انھیں خود ہی معلوم نہیں کہ سرکاری تعلیمی ادارے کس حال سے گزر رہے ہیں اگر کسی تعلیمی ادارے میں انگریزی ریاضی اور سائنس کی تعلیم دینے کے لیے مواقع موجود نہ ہوں بھلا وہ لوگ کیونکر ترقی کے منازل طے کرسکیں گے تعلیم پر تو سب کا یکساں حق ہونا چائیے لیڈر کا بچہ اچھے اسکول اور کالج میں جبکہ غریب کا بچہ سہولیات سے محروم سرکاری اسکول میں پڑھے گا تو یقینااچھے اسکول اور کالج میں پڑھنے والے بچے ہی آگے بڑھ سکیں گے۔ غریب کی مقدر میں صرف زندہ باد مردہ باد کا نعرہ آئے گا جو ایک دن انھیں صرف چپراسی کلرک اور ڈرائیور اور گن مین کی نوکری تک پہنچا ئے گا جو کسی غنیمت سے کم نہیں ہوگا ۔انجئنیرز، ڈاکٹرز اور بڑے عہدے شاید ان کی تقدیر کا حصہ نہیں اس لیے ان کی تعلیم اور تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پنجگور میں ایف سی کے تحت بھی ایک اسکول قائم کیا گیا ہے جو پہلے پرائمری کی سطح پر تھا اب اسے اپ گریڈ کرکے مڈل کا درجہ دیا گیا ہے پرائیوٹ سیکٹر میں تو پہلے ہی لاتعداد اسکول موجود ہیں تعلیم نسواں کے حوالے سے بھی پنجگور پسماندہ ہے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج اور انٹر کالج خدابادان کی درجنوں آسامیاں خالی ہیں۔ گرلز ڈگری کالج میں میل اساتذہ کو معاوضہ دے کر تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھایا جارہا ہے مگر انٹر کالج خدابادان اکلوتی پرنسپل کے ذمے میں ہے دیگر تمام پوسٹیں خالی ہیں شاید ان پوسٹوں کو پرہونے میں ایک اور جنم کا انتظار کرنا ہوگا سیاست کا حق ہر جماعت کو ہے اور سیاسی جماعتوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے اجتماعی مسائل کو اہمیت دیں خصوصاتعلیم کے مسئلے پر سب مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ ان تعلیمی اداروں کی بہتری کا نسخہ ایجاد کیا جاسکے۔ پنجگور کی سیاست میں بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ بی این پی مینگل، جمعیت علمائے اسلام ف ،جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن بھی سرگرم ہیں ۔بی این پی مینگل کی قیادت بھی کارنر میٹنگوں کے ذریعے عوام سے رابطہ جاری رکھے ہوئے ہے عید کے بعد شاید وہ بھی جلسہ کرے اور جمعیت کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔پنجگور میں زرعی شعبے کی حالت زار پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، صدیوں پرانا کاریزی نظام زراعت آخری ہچکولے لے رہا ہے اس سے وابستہ سینکڑوں خاندان کاریزوں کا پانی خشک ہونے کے بعد بے روز گار ہوچکے ہیں۔ کجھوروں کے درختوں کے بعد اب دیگر فصلات بھی کیڑے اور بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں پنجگور میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے ماہرین اس کی بڑی وجہ بے تحاشہ بور لگانے کو قرار دے رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر گھر گھر بور لگانے کی روایت جاری رہی تو آئندہ وقتوں میں پنجگور شہر بنجر بن جائے گا ۔