کوئٹہ : بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ 28 جون کو بی این ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو فورسز کے ہاتھوں اغوا و گمشدگی کو سات سال مکمل ہورہے ہیں ۔انہیں 28 جون 2009 کو خضدار کے علاقے اورناچ سے ڈیوٹی کے دوران ہسپتال کی رہائشی کوارٹر سے فورسز نے اغوا کرکے لاپتہ کر دیا ۔فورسز کی جانب سے ڈاکٹر دین محمد بلوچ ،رمضان بلوچ اور غفور بلوچ کی اغوا نما گرفتاری کو کئی سال گزر چکے مگر انسانی حقوق کے ادارے پاکستانی اداروں کو کسی کی بھی بحفاظت بازیابی کیلئے دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں ۔بی این ایم نے 28 جون کے دن کو مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ،غفور بلوچ اور رمضان بلوچ کے نام سے منسوب کیا ہے ۔ اسی طرح ایک اور سال گزرنے کے باوجود ڈاکٹر دین محمدبلوچ سمیت دوسرے بلوچوں کی بازیابی میں پیشرفت نہیں ہوا ہے۔ بلوچستان میں پارٹی کے تمام زون اس حوالے سے ریفرنسز کا انعقاد کریں۔مرکزی ترجمان نے کہ پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی فورسز کے ہاتھوں اغوا ء کو سات سال کا مدت28 جون کو مکمل ہوگے، اسی طرح غفور بلوچ،رمضان بلوچ ،ذاکر مجید بلوچ اور زاہد بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ فرزند سالوں سے عقوبت خانوں میں تشدد کا شکار ہیں ۔ ہماری کئی احتجاج اور نوٹسز کے باوجود اقوام متحدہ ودیگر عالمی اداروں کی خاموشی آج بلوچ نسل کشی کاسبب بن رہی ہے ۔ آج گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی اغوا کے حوالے سے سوشل میڈ یا میں آن لائن کمپیئن #SaveDrDeenMohdBaloch کے ہیشٹیگ سے بلوچستان کء وقت کے مطابق چار سے آٹھ بجے تک چلائی جائے گی۔ تمام انسان دوستوں سے آن لائن مہم میں شرکت کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض میں آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے جس میں ہزاروں افراد بے گھر اور ہزاروں اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور کئے گئے ہیں ۔ مشکے، آواران، خاران، دشت، کیچ، کوہلو اورڈیرہ بگٹی سمیت پورے بلوچستان میں آپریشن تیزی سے جاری ہے۔ گزشتہ دنوں کیچ کے علاقے کلاتک سے ایک ٹیچر رحیم بخش بلوچ ، کیچ گیبن سے جعفر ولد عظیم ، گیبن کراس سے ایک نو عمر لڑکے کو گاڑی سے اتار کر غائب کیا گیا، جس کا نام معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ مشکے کھندڑی سے غلام رسول، گورجک سے بہرام ، 23 جون کو ڈیرہ بگٹی اور لہری کے درمیان گوڑی میں فورسز نے چار بلوچ فرزند ہیبتان، سائین داد اور راضان مری کو اُٹھا کر غائب کیا۔ خاران میں ایک ہفتے سے جاری آپریشن میں فورسز نے سات بلوچ فرزند اغوا، چادر و چار دیواری کی پامالی اور خواتین اور بچوں پر تشدد اور گھروں میں لوٹ مار کی ہے۔ خاران میں سیاسی کارکنوں کے رشتہ داروں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اغوا کیا جا رہا ہے۔ آواران کے علاقے بزداد کُلّی میں بائیس جون کو آپریشن میں عیسیٰ بلوچ اور اس کے بیٹے راشد اور داد بخش اور بدل سمیت کئی بلوچ فرزندوں کو اُٹھا کر غائب کیا گیا، جن کا تاحال کوئی خبر نہیں ہے۔ مشکے کے علاقوں آچڑین اور چرچری میں تین دن سے آپریشن جاری ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں سے تفصیلات حاصل کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔