|

وقتِ اشاعت :   June 29 – 2016

لندن : بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان نے سی پیک کی کامیابی اور بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور بلوچستان سے بے دخل کرنے کے لیے پورے بلوچستان میں ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ آئے روزفورسز بلوچستان کے دور دراز دیہی علاقوں اور گوادر پورٹ کے قریب واقع علاقوں میں ہیلی کاپٹروں سے بمباری کر رہے ہیں جس کا مقصد بلوچ قوم کو وہاں سے بے دخل کرنا اور بلوچ سرزمین کو ہتھیانے اور وسائل پر قبضہ جمانا ہے ۔ حیربیار مری نے کہا کہ اس و قت بھاری تعدا د میں دیہی علاقوں میں آباد بلوچ خواتین، بچے اور بزرگ فورسزکی بمباری سے متاثر ہور ہے ہیں خاص کر گذشتہ دنوں دشت زرین بگ اور بل نگور کے علاقوں میں لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں سے نکل مکانی کرنے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے مشرف دور میں ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری سے لوگوں کو قتل اور اغوء کر نے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں کو زبردستی ان کے علاقوں سے بے دخل کیا گیا ۔ اسی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لشکر کشی کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو وہاں سے نکال کران کی زمین ہتھیا کر پاکستان چین کوریڈور کو کامیاب کرنے کے بعد پنجاب اور چین سے لوگوں کو لاکرآباد کر کے بلوچستان پر قبضہ جمایا جا سکے۔ اس کی تازہ مثال دشت اور تربت کے علاقوں میں لوگوں کی وہاں سے جبری بے دخلی ہے۔ اس طرح کے جارحانہ عزائم کے خلاف بلوچ قوم کے ہر فرد کو انفرادی حوالے سے علاقے چھوڑ کر جانے کے بجائے ہمیں اجتماعی قومی حوالے سے اس طرح کے مسئلوں کو لیکر ان کو نمٹانا چائیے کیونکہ یہ ایک انفرادی ،خاندانی اور علاقاٗئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ مختلف علاقوں میں ہر فرد اور خاندان کو ایک ایک کرکے مرحلہ وار سرزمین سے بے دخل کرنے کا منصوبہ جس پر ریاست کہیں دہایوں سے عمل پیرا ہے وہ ہماری قومی وجود کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ پہلے بھی آبادیوں کو نسل کشی، بربریت اور علاقوں کو مہینوں تک محاصرہ کرکے یہ حالات پیدا کیے گئے کہ بلوچ عوام اپنی سرزمین کو چھوڑ کر بلوچستان سے باہر منتقل ہوں ۔ ناصرف بلوچ عوام کو ان کے علاقوں سے نکال باہر کیا گیا بلکہ دنیا کی امیر ترین سرزمین کے فرزند ہوتے ہوئے بھی آج بھی وہ مہا جریں کی طرح زندگی گزار رئے ہیں۔ بلوچ رہنما نے کہا کہ جس کسی بھی دیہی علاقے میں فورسزکاروائی کررہا ہے اور بلوچ عوام کے پاس اپنی زندگی بچانے کے لیے سوائے نکل مکانی کے کوئی اور راستہ نہیں تب اس صورت میں بلوچ عوام، بلوچستان سے باہر منتقل ہونے کے بجائے بلوچستان میں موجود بڑے شہروں جیسے کہ شال، گوادر، تربت، خضدار ، سبی اور قلات وغیرہ میں جاکر آباد ہوں۔ دور دراز علاقوں میں جہاں انسانی آبادی کم ہے وہاں پرفورسز طاقت کا استعمال شہروں کے مقابلے زیادہ کررہا ہے کیونکہ ریاست دیہی علاقوں میں اپنے جرائم کو دنیا سے با آسانی چھپا سکتا ہے مگر شہری علاقوں میں ان جرائم کو چھپاناآسان نہیں ۔ حیربیار مری نے مزید کہا کہ جو بھی بلوچ فورسزکی وجہ سے بے دخل ہو کر سندھ اور پنجاب میں شامل کئے گئے بلوچ علاقوں میں گئے وہ بھی کوشش کر یں کہ واپس آکر بلوچستان کے بڑے شہروں میں آباد ہوں تاکہ بلوچ اپنی سرزمین پر اقلیت نہ بنیں۔لاکھوں کی تعداد میں بلوچ جو بلوچستان چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناگزین ہیں وہ بلوچستان سے باہر منتقل ہوکر بھی ریاستی ظلم کا شکار ہیں جس کی واضح مثال چند مہینے قبل خیرپور میں بے گھر بلوچ آبادیوں پر حملہ کرنا ہے۔ بلوچ کو اپنی سرزمین پر اقلیت بننے سے روکھنے کے لیے بلوچ قوم کو اپنی مدد آپ کے تحت ریاستی ظلم کے شکار نکل مکانی کرنے والے لوگوں کی مدد او ر ان کی شہری علاقوں میں آباد کاری کرنی ہوگی۔ حیربیار مری نے کہا کہ ایسے حالات میں بلوچ سرمایہ دار، کاروباری ، سماجی شخصیات اور بیرونی ممالک میں صاحب زر اور مالدار افراد متاثرہ بلوچوں کو بلوچستان کے شہری علاقوں میں آباد کاری کرنے میں مدد کریں جس طرح دوسروں اقوام میں موجود صاحب حیثیت لوگوں نے مشکل حالات میں اپنی قوم کی مدد کی ۔ انہوں کہا کہ جو بلوچ بلوچستان سے باہر ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بلوچوں کو پہلے سے اقلیت میں تبدیل کردیا گیا ہے او ر اس طرح کا کوئی امکان باقی نہیں کہ وہ لوگ ان علاقوں میں بحثیت بلوچ اپنا اثرورسوخ رکھیں مگر ان کی تعداد اتنی ہے کہ ا ن کی وطن واپسی سے بلوچستان میں بلوچ کی آبادی پر تعداد کے حوالے مثبت اثرات پڑسکتے ہیں اس صورت میں اگر ان بلوچوں کے لئے ممکن ہے تو وہ بلوچ آبادیاں بلوچستان کے بڑے شہروں میں منتقل ہوجائیں۔ اس عمل میں شائد ان کو عارضی مشکلات کا سامنا ہومگر ایسے افراد کو اپنی قومی شناخت اور سرزمین بچانے کے لیے مستقل بربادی پر عارضی مشکلوں کو ترجیح دینی ہوگی۔ حیربیار مری نے آخر میں کہا کہ برطانیہ ایک نیو کلئیر پاور ہونے کے ساتھ ساتھ فوجی ، سیاسی اور معاشی حوالے سے دنیا کا ایک طاقت ور ملک ہے ، اس کے عوام بھی یورپی یونین سے اس لیے الگ ہوجاتے ہیں کہ برطانیہ کی قانون سازی کی چند اختیارات یورپی یونین کو دے دی گئیں تھیں جن میں سے ایک یورپی یونین سے لوگوں کی آزادانہ طور پر برطانیہ میں آکر آباد ہونا اور ملازمتیں لینا تھا ور اب ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد وہاں کے سیاسی رہنما یورپی یونین سے الگ ہونے کو اپنی قومی آزادی قرار دے رئے ہیں کیونکہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں میں آزاد اور علیحدگی کے بعد اپنی سرحدوں اور غیربرطانوی افراد کی نقل و حمل اور حق ملازمت کو یورپی یونین کے قوانین کے بجائے اپنے قومی مفادات کے تحت کنٹرول کر سکے گا۔ اگر برطانیہ جیسا ملک جو کہ جی سیون کے ساتھ صنعتی اور اقتصادی طور پر مضبوط ممالک کے گروپ کا ایک رکن ہے وہ بھی چند فیصلوں میں اختیارات سے دستبرداری کو اپنی قومی اور سیاسی وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بلوچ اپنی قومی ریاست کی آزادی کے مطالبے اور جدوجہد سے ستبردار ہو کر پاکستان اور ایران کے سامنے سرجکا ئے اور پنجاب اور چین سے بڑی تعداد میں لوگوں کی بلوچستان میں آباد کاری پر خاموش رہ کر اپنی قومی اور سیاسی وجود پرسمجھوتہ کریں ؟