عائشہ صدیقہ کی انگشت بدنداں کر دینے والی انکشافات کے بعد سپریم کورٹ کی کراچی میں رینجرز کے تیل کے کاروبار میں ملوث ہونے اور باضابطہ پیٹرول پمپ چلانے کی خبریں کم حیرت کن نہیں ہیں ۔ یہ امر تحقیق طلب ہے کہ ضلع اور تحصیل سطح پر پولیس اور لیویز اپنی اپنی بساط کے مطابق کاروبار میں منسلک نہ ہوں شاید اسی بناء پر یار لوگوں نے طورخم بارڈر کے واقع کے بعد فیس بک پر یہ مشہور کردیا کہ جن کو بارڈر کی حفاظت کرنی ہے وہ گولف کھیلنے میں مصروف ہیں‘‘ حالانکہ اگروہ گولف کھیل رہے ہوتے تو ظور خم بارڈر کی حفاظت کیونکر ہوپاتی لیکن لوگ ہیں بال کی کھال اتارنے میں لگے رہتے ہیں غالباً اسی لیے جسٹس گلزار نے رینجرز پر جملہ کستے ہوئے کہا کہ ’’ اگر کاروبار ہی کرنا ہے تو آٹا ‘ چاول اور دال کا کاروبار کیوں نہیں کرتے؟لیکن اہل ایمان کو معلوم ہے کہ رینجرز آٹا‘ چاول اور دال کا کاروبار نہیں کرتے؟دال آٹے کے کاروبار سے پہلے ذرا یہ معلوم کیاجائے کہ رینجرز کو یہ طعنے سننے کیوں پڑے ؟ اخبارات کے مطابق پچھلے ہفتے جسٹس گلزار احمد‘ جسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل بنچ نے رینجرز ہی کے ایک سپاہی امجد اقبال کی جانب سے فیڈرل سروسز ٹریبونل کے خلاف اپیل کی سماعت کی جس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اندرون سندھ شہباز رینجرز (پوری فورس نہیں ) ایک پیٹرول پمپ چلا رہی ہے جس کا منیجر ڈی ایس آر ( اب جج کو بلا غصہ کیوں نہ آئے !) جبکہ عملہ تمام رینجرز پر مشتمل ہے ( کون سا گولف کھیل کر عیاشیاں کررہے ہیں ) اور درخواست گزار خود وہاں منشی کی حیثیت سے کام کررہا تھا معاملہ کورٹ تک یوں پہنچا کہ رینجرز کے اس پمپ پر 37لاکھ کی خرد برد کا انکشاف ہوا اور رسی پوری اسی منشی کے گلے میں فٹ ہوگئی معاملے کی رینجرز انکوائری بھی کی گئی (کاروبار میں 37لاکھ کوئی معمولی رقم تو نہیں ہوتی )اس انکوائری میں کیشئیر (منشی ) میر محمد حوالدار سمیت دیگر سپاہیوں کو نامزد کیا گیا اخبارات کے مطابق کمانڈنٹ رینجرز نے درخواست گزار کو قصور وار قرار دے دیا اور 89اوز کی سزا (سزا کی نوبت کا معلوم نہیں ) اور مجموعی رقم کا بیس فیصد یعنی سات لاکھ روپے ادا کرنے کا جرمانہ عائد کردیا ۔اس کے بر خلاف درخواست گزار کا موقف ہے کہ وہ پمپ پر منشی /کیشئیر تھا اور اس کا پورے معاملے سے کوئی لین دین یا واسطہ نہیں تاہم وہ اپنی سزا (جرم کے بغیر ) پوری کر چکا ہے اور دو لاکھ روپے بطور جرمانہ بھی ادا کر چکا ہے اس کے باوجود اس کی تنخواہ سے ماہانہ بنیادوں پر تنخواہ کا تیس فیصد حصہ جرمانہ کی ادائیگی کی صورت میں کاٹا جارہا ہے اس مجبور سپاہی نے فیڈرل سروسز ٹریبونل سے بھی رجوع کیا تھا جس نے سزا اور جرمانے کو بر قرار رکھا البتہ انہیں گستاخی کی معافی دے دی ۔
قارئین کرام !سوال وہی محترم جسٹس گلزار والا ابھر کر ذہن میں آتا ہے کہ اگر رینجرز تیل کا کاروبار کر سکتا ہے تو آٹا دال اور چاول کا کیوں نہیں ؟ جواب نہایت سادہ سیدھا ہے کہ آٹا ‘ دال چاول بلوچستان سے آتے ہی نہیں ہیں اور یہ خوردونی اشیاء جہاں سے آتی ہیں وہاں کے کاروباری حضرات سے رینجرز کی نہ تو دال گلتی ہے اور نہ ہی چاول البتہ تیل کا کاروبار اس لئے عروج پر ہے کہ یہ سارا بلوچستان سے آتا ہے جبکہ بلوچستان کے مالک قوم پرست گوادر میں دو پلاٹ اور تربت یونیورسٹی کی زمین کے دو فٹ دو ہزار روپے کی سودا میں نہ صرف مگن ہیں بلکہ مسرور بھی ہیں ۔
قارئیں کرام !سندھ رینجرز کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں جو تیل کا کاروبار کررہی ہے وہ تیل نہ تو واہگہ بارڈر سے آتا ہے اور نہ ہی کوئی کابلی مال ہے یہ سارا تیل مکران کے راستے ایران سے آتا ہے مگر کراچی پہنچتے پہنچتے بس اور ٹرالر مالکان کو مکران تا کراچی کے راستے میں موجود ہر ہر چوکی پر بیس گیلن تیل ان منشیات ‘ اسلحہ اور را کے ایجنٹوں کو روکنے والے فورسز کے اہل کاروں کو دینا پڑتا ہے ۔ روزانہ سینکڑوں بسوں ’ ٹرکوں اور ٹرالروں سے بیس ‘ بیس گیلن تیل مل کر کتنا بنتا ہے ؟آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں آپ یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں اس تیل سے کراچی اور سندھ کے کتنے پیٹرول پمپ چل رہے ہونگے ۔ ان بس اور ٹرالروں کے مالکان کے مطابق اس راستے میں موجود تمام فورسز کی چوکیوں کے افسران محکمے کی طرف سے دی جانے والی پیٹرول کا تمام خرچہ جیب میں ڈال کر اس پیٹرول کی کمی ان بسوں ‘ ٹرکوں اور ٹرالوں سے اتارکر پورا کرتے ہیں ۔
قارئین!اس تمام منظر نامے میں اہم بات یہ ہے کہ یہ ایرانی تیل رویگ‘ جالگی اور کپ کپار سے اوتھل تک اسمگلنگ ہوکر آتا ہے جو قابل ضبطی اور گرفتاری ہے جبکہ یہی تیل اوتھل سے نکل کر حب چوکی ‘ کراچی ‘ سندھ ‘ پشاور ‘ کابل اور پنجاب تک ہر ہر جگہ کاروبار میں منقلب ہوجاتا ہے آخر اس اسمگلنگ کی اوتھل سے نکلتے ہی کایا کلپ کیسے ہوجاتی ہے آخر اس میں کن فرشتوں کا ہاتھ مقدس شامل ہے ؟ آخر بلوچستان کی حدود سے نکل کر پاکستان کے طول و عرض میں کہیں بھی اس تیل پر اسمگلنگ کا اعتراض کیوں نہیں اُٹھتا ؟؟ اس کی زیادہ تر ذمہ د اری بلوچ قوم پرستوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بلوچ کے کاروباری مقاصد کو کبھی اہمیت ہی نہ دی اس سلسلے میں قوم پرست بلوچ کاروباری حضرات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان افراد کو یہ کہہ کر کہ ’’ یہ سمگلنگ ہے ‘‘ ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ بلوچ قوم پرست لیڈران کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جو یا تو سردار ہیں یا اپنے اپنے علاقوں کے معتبرین ہیں جن کی پرورش ہی اس بیانیے کے ساتھ کی جاتی ہے کہ لوگ اس وقت تک تابعدار رہتے ہیں جب تک وہ معاشی طورپر کمزور اور دست نگر رہیں چونکہ بلوچ قوم پرست کوئی باضابطہ قومی پروگرام دینے سے قاصر رہے ہیں اس لیے ان کی شروع ہی سے پالیسی رہی ہے کہ اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور بر قرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ورکرز یا عام آدمی کو معاشی طورپر کمزور یا دست نگر رکھا جائے حالانکہ رہنما اپنے عوام کی معاشی خوشحالی کے لئے نہ صرف منصوبہ بندی کرتے ہیں بلکہ انہیں خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے لئے حکمت عملی بھی ترتیب دیتے ہیں اس کے برعکس نواب اکبر بگٹی کے علاوہ اگر ہم تمام بلوچ وزراء کی کارکردگی اور منصوبہ بندیوں کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ ان کی پالیسیاں اپنے اپنے حلقے کے عوام کو معاشی طورپر پیچھے دھکیلنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اس لسٹ میں نواب اکبر بگٹی کے علاوہ خالد لانگو اور کچکول علی ایڈووکیٹ شامل نہیں۔ اگر ہم سرحدی کاروبار کے پس منظر میں بلوچ پارلیمان رہنماؤں کی تاریخ دیکھیں تو 1988ء سے لے کر نہ بکنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ تک بلوچ پارلیمانی سیاستدان مسلسل سرحدی کاروبار کی مخالفت کرتے رہے ہیں اسے اسمگلنگ قرار دے کر ریاست پاکستان کے قانون و آئین کی خلاف ورزی گردانتے رہے ہیں ۔پنجاب ‘صوبہ خیبر اور سندھ کے قوم پرستوں کے بر خلاف بلوچ پارلیمانی سیاستدانوں نے کبھی اپنے غریب اور بے روزگار عوام کی خاطر اس کاروبار کی حمایت نہیں کی۔ پارلیمان اور ایوانوں میں آواز اٹھانا درکنار کبھی ایک اخباری بیان دینا بھی گوارا نہیں کیا جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے اولین دشمن ‘ روایتی حریف اور پاکستان کو دولخت کرنے والے بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر پر کاروبار کبھی بند نہ ہوئی چند دن پہلے طورخم بارڈر پر افغان آرمی کی طرف سے بلا اشتعال حملے کے دوران ایک پاکستانی میجر جواد علی چنگیزی کی شہادت اور کئی سپاہیوں کے زخمی ہونے کے باوجود چمن بارڈر پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈجاری رہا ۔ طورخم میں بھی پانچ دن کے مسلسل فائرنگ کے تبادلے کے بعد چھٹے دن ٹریڈ کا بقاعدہ آغاز ہوا۔ یہی عمل ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر پر کاروبار ہے یہی عمل دشمن ‘ دہشت گرد اسلحہ اور منشیات کے مرکز اور را کے ایجنٹ بھیجنے والے افغانستان کے بارڈر طورخم اور چمن میں کاروبار ہے لیکن بلوچستان کے تپستان ر دیگ ‘ جالگی ‘ پروم‘ کپ کپار اور جیونی میں سمگلنگ ہے اور وہ بھی ہمسایہ ‘ برادر ‘ دوست ‘ مسلمان ‘ پر امن ‘ ابھرتی معیشت ایران کے ساتھ۔ آیا اہل بلوچستان اور بلوچ ان سوالات اور معلومات سے بے خبر ہیں ؟ ہر چند کہ بلوچ پارلیمانی لیڈر بکاؤ مال رہے ہیں مگر یہ خدشات بلوچ کے دل میں مسلسل مدو جزر کے ساتھ ابھرتے رہیں گے افسوس اس بات کا نہیں کہ رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچ عوام کے ساتھ تیسرے درجے کے شہری کا سلوک روا رکھ کر مال غنیمت بٹور رہے ہیں افسوس اس بات کا ہے اس تمام تر معاملے میں بلوچ رہنما پارلیمان اور پارلیمان کے باہر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں مگر دوسری جانب اسی خاموشی کے ساتھ عام بلوچ کے دل میں اپنے منافق رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ریاست اور وفاق کے خلاف بھی نفرتیں پیدا ہورہی ہیں اس سلسلے میں بلوچ پارلیمانی لیڈر نہ صرف اپنے عوام کی معاشی بد حالی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ دوسری طرف عام آدمی میں ریاست کے خلاف نفرتیں ابھار کر بھی فائدہ اٹھانے کی تگ و ودو میں لگی ہوئی ہیں اس تناظر میں بلوچ رہنما ؤں کے دونوں ہاتھ گھی میں ہیں البتہ اس فائدے کا نقصان پہنچنے کا سیدھا احتمال ریاست کو ہے کیونکہ مکران سے نکل کراچی پہنچتے پہنچے بیس بیس گیلن تیل کے عوض سینکڑوں مسافر جس عذاب اور اذیت میں مبتلا رہتے ہیں یہ صرف ان کو چوں میں سفر کرنے والے مسافر جانتے ہیں یا ان کا خدا ،54سینٹی گریڈ کی گرمی میں مختلف چوکیوں پر موجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عملے کے ہاتھوں بھگتتے ہیں یہ ممکن ہے کہ بلوچ اقدار ’ میرٹ اور ایمر جنسی کی سیاست کرنے والے رہنما بر تر افسران کویہ باور کراتے پھر یں کہ عام بلوچ اس سماجی ’ سیاسی اور معاشی ذلالت سے بے خبر ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ عام کاروباری بلوچ جب پٹھان ‘ پنجابی اور سندھی کو طورخم اور چمن ‘ واہگہ اور کو کرا پار سے سرحدی تجارت کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کو یہ احساس ستانے لگ جاتا ہے کہ وہ اس ملک میں تیسرے درجے کا شہری ہے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ 1988 ء میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی مکران میں پنجگور‘ تربت اور گوادر کے سرحدی علاقوں کے مکینوں نے اپنے اپنے نمائندوں کو ایران کے ساتھ بارڈر ٹریڈ بڑھانے کیلئے زور ڈالا تھا جبکہ تب ان علاقوں کے نمائندے لوگوں کو پسماندہ رکھنے کی اپنی روایتی سوچ کے مطابق لوگوں میں ریاست مخالف جذبات ابھارتے ہوئے ان کو باور کراتے رہے کہ ریاست پاکستان بارڈر ٹریڈ کو کاروبار نہیں بلکہ سمگلنگ سمجھتی ہے ۔ اور یہ نمائندے اپنے مخصوص انداز میں مخصوص جملوں کے ساتھ ان کاروباری افراد کی حوصلہ شکنی کرتے رہے ہیں کہ ’’ ہمارے بے وقوف کاروباری حضرات سمگلنگ کو بھی کاروبار سمجھتے ہیں ‘‘ لیکن ان تیس سالوں میں میڈیا اور روایتی بلوچ سیاستدانوں کے متبادل عناصر بلوچ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ سرحدی تجارت کی بندش ریاست پاکستان کی پالیسی نہیں بلکہ ان روایتی سیاسی معتبرین کی خواہش ہے جو عام بلوچ کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتے ورنہ ریاستی مقتدرہ کو کب یہ معلوم ہے کہ مند‘ دیگ ‘ جالگی ‘ کپ کپار ‘ پروم سرتپستان میں بلوچ غریب دو ڈبے مٹر‘ ایک تھیلی آٹا‘ ایک کاٹن کیک اور ایک کلو واشنگ پاؤڈر کے لئے فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں مند اور تپستان میں اس طرح کے الگ قبرستان موجود ہیں جہاں وہ بلوچ دفن ہیں کہ جن کو ایک تھیلا آٹا اور دو ڈبے مٹر کے لئے نشانہ بنایا گیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ پارلیمانی رہنما الیکشن میں ہارنے کے خلاف شناختی کارڈ آفس ‘ واپڈا اور پولیس تھانوں کو جلانے کے مرتکب ہوئے مگر کبھی ان بیچارے غریب بلوچوں کے لئے آواز اٹھائی ہو ؟ مگر آج ہر بلوچ اس بات سے آشنا ہے کہ واہگہ بارڈر ‘ طور خم اور چمن ‘ کابلی گاڑیاں ‘ ہیروئن ‘ دھماکہ خیز موادکاروبار کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں تو ردیگ اور تپستان میں خوردنی اشیاء کی درآمد کیونکر سمگلنگ ہوسکتی ہے ؟
موجودہ صورت حال میں یہ بات ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کی سمجھنے کی ہے کہ بلوچ پارلیمانی لیڈر مقتدر حلقوں کو چاہے کچھ باور کرائیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں عام بلوچ ان رہنماؤں کے بلوچ عوام اور ریاست کے درمیان منافقانہ رویے کو بھانپ چکے ہیں اس لئے یہ روایتی قوم پرست معتبرین اسٹیبلشمنٹ کے لئے اب صرف لنگڑے گھوڑے کا کردار ادا کر سکتے ہیں جو ریس میں تو شامل ہو سکتے ہیں مگرانکا جیتنا محال ہے ان ریاستی اختیار داروں کو ان روایتی قوم پرستوں پر اکتفا کرنے کے بجائے سیدھا عام بلوچ کے دل میں جگہ بنانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیں اور اسکی ابتداء مکران اور دالبندین میں برادر ہمسایہ ‘ اسلامی دوست ملک ایران کے ساتھ فوراً سرحدی تجارتی معاہدات کرنے چاہیں کیونکہ بلوچستان میں فیکٹریاں اور دیگر صنعتوں کی عدم موجودگی اور پچھلے تیس سالوں میں جعلی قوم پرستوں کی اقربا پروری اور اپنے اپنے رشتہ داروں کو پانچ پانچ نوکریاں فی فرد نوازنے کے بعد عام آدمی نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس کی تلافی صرف اور صرف ایران کے ساتھ بارڈر ٹریڈسے کی جا سکتی ہے ۔ ایران کے ساتھ بارڈر سے معاشی خوشحالی کے بعد شاید عام بلوچ کے دل میں یہ بات نہ ابھرے کہ جو عمل واہگہ بارڈر ‘ طورخم اور چمن اور کوکھرا پار میں کاروبار ہے وہی عمل بلوچستان میں کیونکر سمگلنگ کی روپ دھار لیتی ہے یا ان علاقوں میں مند اور تپستان کی طرح سمگلرز کی قبرستانیں کیوں موجود نہیں ہیں ؟ حالانکہ ان علاقوں میں بلوچ کے برعکس پاکستان کے ازلی دشمن اور سازشی ممالک بھارت اور افغانستان سے سمگلنگ کی جاتی ہے جبکہ بلوچ کا کاروبار دوست ‘ برادر ‘ہمسایہ مسلم اور پر امن ملک ایران کے ساتھ ہے ۔