|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2016

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے واشک کے علاقے راغئے میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ہاتھوں بلوچ طالب علم صدام ولد ماسٹر عبدالعزیز کی شہادت کو بلوچ تعلیم یافتہ طبقے کو نشانہ بنانے کی ریاستی پالیسیوں کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوان فورسز کے وردی پوش اہلکاروں اور ان کے پراکسی گروہوں سے بلوچستان کے کسی بھی حصے پر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کو ریاست کی بربریت نے عملاََ ایک قتل گاہ میں تبدیل کیا ہوا ہے جہاں پر فورسز بلوچ نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور انہیں ہلاک کرنے میں کسی بھی قانون سے خود کو بالاتر تصور کرتے ہیں۔ راغئے واقعے کے علاوہ گزشتہ روز مکران کے علاقے تمپ میں فورسز نے راستے ہی میں دو بلوچ نوجوانوں عنایت ولد امام اور مند کے رہائشی عامر ولد لطیف کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔ فورسز بلوچ فرزندان کو دورانِ حراست غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں پھنکنے کی کاروائیوں براہ راست ملوث ہیں اس لئے مغوی نوجوانوں کے خاندان اپنے پیاروں کی زندگیوں کے حوالے سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ بی ایس او آزاد نے کہا کہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ اپنی وفاداری ریاست کے ساتھ ثابت کرنے اور اپنی تنخواہ میں اضافے کے لئے قومی آزادی کی تحریک کے خلاف منفی پروپگنڈہ کررہا ہے۔ ریاست اور اس کے آلہ کاروں کو آزاد بلوچ ریاست کی بحالی کی صورت میں اپنے خاندانی و گروہی مفادات کی موت واضح طور پر نظر آرہی ہے اس لئے مذکورہ گروہ آزادی کی تحریک کے خلاف حتی الوسع کوششیں کررہے ہیں۔ بی ایس او آزاد نے کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اپنے فطری حق آزادی کے حصول کے لئے شدید ترین ریاستی مظالم کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود انسانیت کی تحفظ کے دعویدار ملکی و عالمی ادارے مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جو کہ بطور قوم بلوچ عوام کے ساتھ عالمی اداروں کی نا انصافی ہے۔