کوئٹہ: بلوچستان کے فنکاروں نے صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں ناکافی سہولیات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ صحت کی غفلت کے باعث سانحہ کے کئی زخمیوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ کروڑوں روپے فنڈز خرچ کرنے کے باوجود ٹراما سینٹر فعال کیوں نہیں ہوا، زخمیوں کے ورثاء سے کیوں ادویات باہر سے منگوائی گئیں۔ ادویات کی مد میں کروڑوں روپے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟یہ بات سینئر فنکار ایوب کھوسہ ، اصل دین، اے ڈی بلوچ، عمر فاروق اور دیگر فنکاروں نے کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ فنکاروں نے پریس کلب میں سانحہ کوئٹہ پر صحافیوں، وکلاء اور دیگر متاثرین سے تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا اور فاتحہ پڑھی۔ فنکاروں نے سانحہ کوئٹہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی وجوہات اپنی جگہ ہیں اور اس کے سدباب کیلئے ادارے بھی کام کررہے ہیں لیکن اہم بات جسے نظر انداز کی جارہی ہے وہ صوبے کے صحت کے شعبے کی بد حالی ہے۔ وکلاء پر حملہ صوبے کے کسی دور دراز علاقے میں نہیں بلکہ صوبائی دار الحکومت کے مرکز میں واقع سب سے بڑے اسپتال میں ہوا جہاں کئی زخمیوں نے بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جانیں دیں۔ اسپتال عملے نے زخمیوں کیلئے ادویات باہر سے منگوانے کا کہا لیکن دھماکے کے بعد تمام میڈیکل اسٹورز بند تھے اور ادویات مل نہیں رہی تھیں۔ ایوب کھوسہ نے کہا کہ سول اسپتال کا ٹراما سینٹر کی عمارت تیرہ کروڑ روپے کی لاگت سے پانچ سال قبل تیار ہوچکی ہے۔ پچاس کروڑ روپے کی مشنری اور چار کروڑ روپے کا فرنیچر بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ٹراما سینٹر کو فعال نہیں کیا جارہا ہے۔ عوام کو جواب دیا جائے کہ ٹراما سینٹر کی بحالی میں کون لوگ رکاوٹ ہیں۔ نجی اسپتالوں کے مالکان بعض ڈاکٹروں ،بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے ساتھ ملکر ٹراما سینٹر کو فعال نہیں ہونے دے رہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ زخمیوں کو ایک سے دوسرے اسپتال لے جاتے رہے لیکن انہیں بروقت علاج نہ مل سکا۔ زخمیوں کو کیوں کراچی بجھویا گیا۔ کیا اربوں روپے فنڈز کے باوجود بلوچستان کا ایک بھی اسپتال زخمیوں کے علاج کے قابل نہیں تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھر فنڈز کہاں استعمال ہورہے ہیں۔ ٹراما سینٹر میں ساٹھ ڈاکٹر تعینات کئے گئے ہیں۔ فنکاروں نے اعلان کیا کہ فنکاروکلاء، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ملکر ٹراما سینٹر کی عدم فعالی کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔ ایوب کھوسہ نے کہا کہ بریکنگ نیوز کے چکر میں کئی صحافی جانیں گنوا چکے ہیں۔ چینلز مالکان کو اپنے کارکنوں کی زندگیوں کو اہمیت دینی چاہیے۔