|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2016

کوئٹہ : لاپتہ بلوچ اسیران، شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو2426 سن ہو گئے اظہار یکجہتی کرنیوالوں میں تحصیل وڈھ سے سیاسی وسماجی کارکن امیر جان بلوچ، لطیف علی بلوچ نے اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ بلوچ اسیران شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا اور انہوں نے کہا کہ بلوچستان آگ وخون کا ایک منظر پیش کر رہا ہے اداروں کی کا رروائیوں میں تیزی اور وسعت آرہی ہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ جمہوریت کی دعویدارحکومت ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مصداق اپنے ان وعدوں اور علانات پر عمل پیرا ہو تے ہوئے کہیں دکھائی نہیں دیتی جن میں بلوچستان کے مسئلے کو طاقت کی بجائے پرامن سیاسی ذریعے سے حل کر نے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا اور بنیادی مسئلہ تو اپنی جگہ حکومت ان وعدوں کی تکمیل سے بھی دور بھاگتی ہوئی نظر آتی ہے جن میں لاپتہ بلوچوں کی بحفاظت بازیابی اور ان کی مسخ شدہ لا شوں کو پھینکنے کا سلسلہ بند کر تے ہوئے ان کے ذمہ داروں کے خلاف کا رروائی کے نکات میں شامل تھے لیکن اقتدار کے حصول کے بعد مسلم لیگ ن کی حکمران قیادت بلوچ قوم، سیاسی واقتصادی اور جمہوری حقوق کو تسلیم اور بحال کر نے کی بجائے انہیں مزید محدود اور سلب کر نے کے طور پر سامنے آئی ہے ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جنرل مشرف کے آمرانہ دور سے لے کر پی پی کے سابقہ اور مسلم لیگ (ن) کے موجودہ جمہوری دور تک جاری طاقت کے استعمال کے گراف کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ آمرنہ دور میں شروع ہونیوالے بلوچستان آپریشن کی شدت پی پی اور مسلم لیگ(ن) کی جمہوری حکومتوں سے زیادہ بڑی ہے اور موجودہ جمہوری دور حکومت تو سب سے بد ترین قرار دیا جا رہا ہے اس حوالے سے بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ جنرل مشرف کی آمریت تو محض ابتدا ء تھی جبکہ ن لیگ کی جمہوری حکومت اسے جلد ازجلد تباہ کن انجام تک پہنچانا چا ہتی ہے۔