گزشتہ روز بیس گھنٹوں کے دوران چھ گاڑیوں پر حملے کرکے ان کو تباہ کیا گیا، حملہ آوروں نے آگ لگانے والے بم استعمال کیے یا ایسا کیمیکل چھڑک دیا جس نے آگ پکڑ لی ،فائر بریگیڈ کے پہنچنے سے پہلے وہ گاڑیاں جل کر تباہ ہوگئیں ۔ ان میں تین بسیں ،ایک ٹرک اور دو چھوٹی گاڑیاں شامل تھیں کسی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی البتہ ان حملوں سے کراچی کے ٹرانسپورٹرز اور بس مالکان کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اگر یہ حملے بند نہ ہوئے اور ملزمان گرفتار نہ ہوئے تو وہ غیر معینہ مدت کے لئے ہڑتال کریں گے اور کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو مفلوج بنا دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت ان تمام نقصانات کا ازالہ کرے اورمالکان کو تاوان ادا کرے تاکہ وہ نئی گاڑیاں خریدیں اور اپنا روزگار جاری رکھیں۔ یہ واقعات حکومت وقت خصوصاً سب سے زیادہ طاقتور سندھ رینجرز کے لئے ایک کھلا اوربڑا چیلنج ہیں کہ وہ ان ملزمان کا پتہ لگائے اور ان سب کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ ادھر پولیس نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ایک یونٹ یا سیکٹر انچارج اور ان کے تین ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اورتحقیقات شروع کردی ہے تاہم یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی ہے کہ ان میں کون لوگ ملوث ہیں یہ سب تحقیقات اور گرفتاریوں کے بعد ہی پتہ چلے گا البتہ اشارے یہ ہیں کہ ایم کیو ایم نے موجودہ صورت حال میں مزاحمت کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ خصوصاً الطاف حسین کی حمایت میں جگہ جگہ بینرز آویزاں کرنا اور متحدہ کے اسٹائل پر عوامی ٹرانسپورٹ کو نشانہ بنانا اس بات کا اشارہ ہے کہ متحدہ کا کوئی ایک گروہ اس میں ملوث ہے اور اس کا مطلب صاف اور واضح معلوم ہے کہ کراچی کی روز مرہ زندگی کو مفلوج بنایا جائے ۔ گزشتہ سالوں متحدہ کے کارکن خصوصاً مسلح گروہ کے اراکین اس قسم کی کارروائیاں کرتے رہے ہیں چونکہ وہ پی پی پی اور اس کی سندھ حکومت کے خلاف ہوتے تھے اس لیے وفاق نے اس وقت ہمیشہ چپ سادھے رکھی۔ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں خصوصاً بھارت پاکستان کے اندر اور خصوصاً کراچی میں عدم استحکام چاہتا ہے تاکہ حکومت پاکستان پر دباؤ بر قرار رہے کہ وہ بھارت کے سامنے اپنا سرخم رکھے ۔اب ضرور وفاقی حکومت اور اس کے ادارے ان عناصر کے خلاف زبردست کارروائی کریں گے کیونکہ اب یہ مسئلہ سندھ کا نہیں وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا ہے کہ ان تمام مسلح گروہوں کا خاتمہ کرے جو ریاست پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیے ہوئے ہیں ۔سندھ کی سرحد بھارت سے ملتی ہے اور یہ طویل سرحد ہے اس لئے یہ ممکن ہے کہ بھارت سندھ میں زیادہ دراندازی کرے بہ نسبت بلوچستان کے جس کی سرحد بھارت سے نہیں ملتی۔ بہر حال بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کے ہاتھ لمبے ہیں اور کہیں بھی وہ کچھ کر سکتا ہے ۔ لہذا کراچی میں یہ نئے واقعات خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دشمن متحدہ کے مسلح گروپ کو استعمال کرسکتا ہے تاکہ ملک میں خصوصاً سندھ میں عدم استحکام بر قرار رہے بلکہ کراچی کو ٹارگٹ بنایا جائے تاکہ پاکستان کو معاشی استحکام بھی نصیب نہ ہو ۔یہ وفاقی اور سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے مسلح گروہ کا پتہ لگایاجائے جو اس قسم کی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے یقیناً وہ متحدہ کا وہی مسلح ونگ ہے جو پہلے بھی اس قسم کے واقعات میں ملوث رہا ہے شاید الطاف حسین اور اس کی حامیوں کے لئے یہی ایک واحد راستہ رہ گیا ہے کہ وہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کریں اور عوام الناس میں دہشت پھیلائیں اور دشمن ملک کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ یہ ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ہر حال میں کریں ۔ان عناصر کا فوری پتہ لگائیں ،ان کو گرفتار کریں اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں ۔
کراچی میں دہشت گردی
وقتِ اشاعت : September 10 – 2016