|

وقتِ اشاعت :   September 11 – 2016

بے شمار خوبیوں کو خود میں سموئے، عظیم ساحل سمندر اوراپنے جغرافیائی خدوخیال کی وجہ سے گوادر نہ صرف علاقا ئی بلکہ بین الاقوامی سطح کافی مشہورہوچکا ہے۔یہ بین الاقوامی قوتوں کے توجہ کا مر کز بن چکا ہے کیونکہ مستقبل قریب میں یہ ان کی معاشی ودیگر ضروریات کو پورا کرے گا۔ چین کی جانب سے 46ملین ڈالر کی لاگت سے گوادربندگاہ کی تعمیر ، اقتصادی رہداری، اکنامک کوری ڈور،اور سی پیک منصوبے پر کام تیز سے جاری ہے۔ چین کس غرض سے یہاں اتنے بڑے پیمانے پر ڈالر خرچ کررہا ہے ،کیا چین گوادر بندر گاہ کو صرف معاشی مقاصد کے لیے استعمال کرے گایا عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال کرے گا؟یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ چین اس بندرگاہ سے کیا کام لے گا تاہم یہ بحث دنیا بھر میں شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔اسی لیے بعض عالمی طاقتوں کی بے چینی و اضطراب میں دن بدن اضافہ ہورہاہے ۔ یہ بحث اپنی جگہ، آج سے سو سال پہلے برطانیہ کے مشہور جغرافیہ دان سر ہلفرڈ میکنڈر نے وسطی ایشیائی ریاستوں میں موجود وسائل اور ساحل بلوچ گوادر کے بارے میں جو پیشن گوئی کی تھی آج وہ درست ثابت ہورہی ہے۔سر ہلفرڈ میکنڈر نے کہا تھا کہ آنے والے وقتوں میں سینٹرل ایشیائی ریاستوں پر جس کا تسلط ہوگاوہ پوری دنیا پر راج کرے گا۔بدقسمتی سے اس وقت معمول کے مطابق لوگوں نے اس کی باتوں کا مذاق اڑایا تھا۔جب سویت یونین کا شیرازہ بکھرجانے کے بعد سینٹرل ایشیائی ممالک آزاد ہوگئیں۔دنیا کو ان ریاستوں کے قیمتی ہونے اور ان میں موجود قدرتی و قیمتی اور معدنی دولت کا اندازہ ہواتو سب کی نظریں ساحل بلوچستان گوادر اور وسطی ایشیائی ممالک پر لگیں۔آج چین ودیگر قوتیں گوادر کو سینٹر ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ تاہم دوسری جانب پلٹ کر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو بلوچستان ، بلوچ قوم بالخصوص گوادر کی عوام اس وقت انتہائی نامساعد حالات سے گز رہے ہیں۔ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ اقتصادی راہداری اور سی پیک منصوبے سے بلوچستان میں ایک انقلاب آئے گا۔ترقی و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا جس سے بلوچ عوام کی تقدیر بدل جائیگی۔تو دوسری طرف بلوچ خاص طور پر گوادر کے عوام پینے کے صاف پانی، تعلیم، صحت،انفراسٹرکچر، بجلی، گیس ودیگر بنیادی سہولیات زندگی کے لیے ترستے ہوئے حکمرانوں سے سوال کررہے ہیں کہ 69سالوں بعد بھی وفاق گوادر کو بجلی جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہے۔کیا سی پیک منصوبے کے بعد بھی اندھیرے گوادر کے عوام کا مقدر ہوگا؟گوادر میں ترقی و خوشحالی کس کے لیے؟کیا سیندک او ریکوڈک منصوبوں سے بلوچ عوام کی تقدیر بدل گئی؟یا سیندک و ریکوڈک منصوبوں سے چاغی کے بلوچوں کی تقدیر بدل گئی؟ چاغی و بلوچستان میں انقلاب آیا؟ اگر نہیں توبلوچ قوم پرست جماعتوں کے خدشات و تحفظات بجا ہیں۔ اس کے علاوہ ، سی پیک منصوبے کے تحت دیگر صوبوں سے سرمایہ کاری، کاروبار اور حصول رزق کے لیے آنے والے لوگ جب مقامی لوگوں میں باہم مدغم ہونگے تو ایک نئی آبادی وجود میں آئے گاجو مقامی لوگوں کی شناخت کھو بیٹھنے کا سبب بن سکتے ہیں اور اس کے اثرات پورے بلوچ قوم پر پڑسکتے ہیں۔بلوچ قوم پہلے سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کابوجھ اٹھائے ہوئے ہے ۔مزید برآں،اس وقت بلوچ قوم ظلم و جبر اور تشدد بالخصوص ناانصافیوں کے بد ترین دور سے گز ر رہاہے۔ ہم لاکھ حقائق چھپانے کی کوشش کریں مگربلوچستان میں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔بلوچ قوم روز اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہے۔ بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ تشدد کے عمل سے بلوچ عوام اور وفاق کے درمیان تناؤ پیدا ہوچکی ہے جسے چھپانے کی بجائے سمجھنے کی ضرورت ہے۔اور حقائق کھل کر بیان کرنے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے خاص طور پرایک دوسرے کی کوتائیوں کو معاف کرکے مزید تشدد کے عمل کوروک کر مفاہمتی عمل کو تیز کرکے بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ضرورت ہے۔ اس لیے بلوچستان نیشنل پارٹی نے بلوچستان بالخصوص گوادر کے جملہ مسائل کے حل کے لیے اسلام آباد میں ایک کل جماعتی کانفرنس اور سیمینار کا انعقاد کرکے ملک کے اہل علم ودانش کو اس کے حل کی تجا ویز بھی پیش کیں۔بد قسمتی سے بی این پی کی جانب سے منعقدہ اے پی سی اور سیمینار کے قراردادوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ۔حالانکہ اے پی سی میں قریب قریب ملک کے تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی جنہوں نے قراردادوں کو متفقہ طور پر منظور کی اور بلوچ قوم کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے سردار اختر مینگل و دیگر بلوچ رہنماؤں کومسائل کے حل کی یقین دہانی بھی کرائی ۔اب جبکہ بلوچ قوم کے اذہان میں سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ کیا بی این پی کی جانب سے اے پی سی و سیمینار میں پیش کردہ قرادادیں آئین و قانون کے خلاف تھے؟اگر خلاف تھے تو ان کو منظور کیوں کیا گیا، اگرخلاف نہیں تھے تو اس پر عمل در آمد کیوں نہیں ہورہا؟بی این پی کی جانب سے سیمینار میں میں پیش کر دہ قراردادیں درج ذیل ہیں۔ 1۔ترقی اور خوشحالی کے نام نہاد دعوؤں کی بنیاد پربلوچستان کے عوام کے استحصال کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔ 2۔گوادر پورٹ کا مکمل اختیار بلوچستان کودیا جائے۔ صوبوں کے ساحل وسائل پر صوبوں کے اختیاراور حق ملکیت تسلیم کیا جائے۔ 3۔گوادر کے بلوچوں اور بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے قانون سازی اور ٹھوس پالیسی تشکیل دی جائے تاکہ ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگوں کو گوادر سے شناختی کارڈ، لوکل سر ٹیفکیٹ جاری کرنے پر مکمل پابندی ہواور انتخابی فہرستوں میں ان کے ناموں کا اندراج نہ ہو سکے۔ 4۔سی پیک کی تکمیل سے قبل ہی گوادر کے عوام کو فوری طور پر صاف پانی، ہسپتال، سکول،انفراسٹرکچر، ٹیکنیکل کالجز،اور پورٹ سے متعلق ہنر مند افراد کے لیے ٹریننگ سینٹر اور میرین یو نیورسٹی تعمیر کی جائے ان میں مقامی لوگوں کوتر جیح دی جائے اورروز گار فراہم کی جائے۔ 5۔گوادر پورٹ اور میگا پروجیکٹ کی تمام ملازمتوں میں گوادر، مکران اور بلوچستان کے باشندوں کو ترجیح دی جائے۔ 6۔گوادر میں ماہی گیروں کو معاشی استحصال سے بچانے کے لیے متبادل روز گار اور ماہی گیروں کے لیے جیٹی تعمیر کی جائے اور موجودہ جیٹی کو وسعت دی جائے۔ 7۔تاپی ،آپی ،ایل این جی پائپ لائن جس صوبے سے گزرے گااس میں صوبوں کا حق تسلیم کیا جائے۔ 8 ۔گوادر کے مقامی لوگوں پر عائد پابندیوں کا خاتمہ اور نقل و حرکت کی مکمل آزادی دی جائے۔ 9۔ گوادر کے لوگوں کوعلاج و معالجے کی سہولت ، بیرون ملک ٹیکنیکل ٹریننگ،ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کے لیے اسکالرشپ دی جائے۔ 10۔گوادر کے مقامی لوگوں کی پسماندگی کودور کرنے کے لیے عوام کو سہولت کے ساتھ ساتھ ٹیکسز اور یوٹیلٹی بلز کی مد میں تین سال تک چُھوٹ دی جائے۔ 11۔گوادر کے مقامی لوگوں کی جدی پشتی ہزاروں ایکڑ زمین کوسرکاری تحویل میں لینے کی مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کی جاتی ہے کہ زمین اصل مالکان کے حوالے کیا جائے۔ 12۔ گوادر میں سرمایہ کاری کرنے کے والوں کے ساتھ مقامی لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ 13۔ گوادر کی تاریخی شہر کو منتقل کرنے کے بجائے پرانی شہر کو تر جیحی بنیادوں پر تر قی دی جائے۔ 14۔سی پیک کے محصولات کا اختیار صوبوں کودیا جائے۔ 15۔اسپیشل سیکورٹی ڈویژ ن کا مکمل اختیار صوبوں کودے کر مقامی باشندوں کواولین بنیادوں پر بھرتی کیا جائے۔ 16۔سیکورٹی کی آڑھ میں فوری طور پر عوام کی تذلیل کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ان قرار دادوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو آئین سے متصادم ہولیکن ان پر عملدرآمد میں تاخیر سے شکوک وشبہات اور سوالات جنم لے رہے ہیں کہ بلوچستان وگوادر کی ترقی کے بلندوبانگ دعوے آسمان کوچھورہے ہیں۔تاہم بلوچ قوم کی حقیقی بنیادوں پرنمائندگی کرنے والے،جمہوریت،آئین وقانون ا ور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والے خصوصاََ بلوچوں کی اکثریت کی دلوں کی ترجمانی کرنے والی نمائندہ جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے سے بلوچوں کے احساس محرومی میں مز ید اضافہ ہوگا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان بالخصوص گوادر کے بڑتے ہوئے اہمیت اوراستحصال زدہ بلوچ قوم کے زخموں پر مرہم رکھ کر ان کے خدشات و تحفظات کو دور کیا جائے ۔ بلوچوں کے اعتماد کی بحالی کے لیے مناسب اقدامات کرکے گوادر و بلوچستان سے خاطر خواہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں جس سے تمام اسٹیک ہولڈر ز مستفید ہوسکتے ہیں۔