|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2016

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی چیئرپرسن بانک کریمہ نے تربت میں گزشتہ ساتھ دنوں سے خواتین کو محاصرے میں رکھنے کے بعد ایک خاتون کی دو بچوں سمیت گرفتار ی کے بعد لاپتہ مقام پر منتقلی اور کوہستان مری میں ایک درجن کے قریب خواتین سمیت درجنوں لوگوں کی گرفتاری و شہادت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی صورت حال عالمی اداروں کی عدم توجہی کے باعث روز بہ روز خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ گزشتہ ساتھ دنوں سے ہم اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ محاصرے میں لئے گئے خواتین کو فورسز نقصان پہنچا سکتے ہیں، آج ان کی گرفتاری ہمارے خدشات کو صحیح ثابت کرگئی۔ تربت میں بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے جاری دھرنے میں شریک خواتین کو بھی فورسز نے ڈرا دھمکا کر حراساں کرنے کی کوشش کہ وہ اپنا احتجاج ختم کریں۔ بلوچ آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے ریاستی پالیسیاں انتہائی غیر انسانی اور جارحانہ ہیں ، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں، سیاسی کارکنوں سمیت جدوجہد کے مختلف ذرائع کا استعمال کرنے والے کارکنوں کے خلاف ریاستی فورسز ایک ہی پالیسی پر عمل پھیرا ہیں، اس پالیسی کے تحت اب تک سینکڑوں سیاسی کارکن ماورائے قانون فورسز کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔اس پالیسی میں وسعت لاتے ہوئے فورسز اب باقاعدہ طور پر خاندان کے خواتین کو حراساں کرکے آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار جہد کاروں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خاندان کے افراد کو حراساں کرنے اور لاپتہ کرنے کی پالیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور عالمی مجوزہ جنگی قوانین کی کھلی لگتمالی ہے۔ اقوام متحدہ اپنے ہی رکن ملک پاکستان کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہے ہے۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا کی مکمل بلیک آؤٹ اور سنسرشپ کی وجہ سے خواتین کا اغواء جیسے ناقابلِ برداشت عمل بھی رپورٹ نہیں ہورہے ہیں، کوہستان مری میں جاری آپریشن کے دوران ایک درجن سے زائد لوگوں کو فورسز نے قتل کردیا جبکہ خواتین سمیت درجنوں لوگ گرفتاری کے بعد نامعلوم مقامات پر منتقل کردئیے گئے۔