|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2016

بلوچستان میں سفر کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں کوئٹہ اور کراچی ‘ اسلام آباد اور لاہور کے درمیان صرف پی آئی اے کی محدود تعداد میں پروازیں موجود ہیں ۔ تمام نجی ائیر لائنز کو یہ اجازت حکومت نے دے دی ہے کہ وہ بلوچستان سے اپنی پروازیں بند کردیں اور جہازوں کو زیادہ منافع بخش روٹس پر منتقل کریں یہ سلسلہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے اب نجی اےئر لائن کی کوئی پرواز بلوچستان میں نہیں ہے دوسرے الفاظ میں اب نجی اےئر لائنز کے لئے بلوچستان اس ملک کا حصہ نہیں رہا ہے ۔ گزشتہ دہائی تک تربت پاکستان کا دوسرا بڑا اےئر پورٹ ہوا کرتا تھا جہاں پر ایک ہفتہ میں 150پروازیں چلاکرتی تھیں ۔ کراچی کے بعد لاہور ‘ اسلام آباد ،ملتان یا کسی دوسرے شہر میں اتنی پرواز بھی نہیں چلائی جاتی تھیں لیکن اب تقریباً درجن بھر سے زیادہ بلوچستان کے ائیر پورٹ بند کردئیے گئے یا سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس بات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے کہ بلوچستان کے عوام کو بھی برابری کی بنیادی پر ہوائی سفر کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ شاذو نادر ہی ایک آدھ پروازکوئٹہ کو بلوچستان کے دوردراز علاقوں خصوصاً مکران ‘ پسنی ‘ جیونی ‘ اورماڑہ ‘ تربت ‘ پنجگور ‘ خضدار ‘ ژوب ‘ دالبندین ’ سبی یا سوئی سے ملاتی ہو تقریباً تمام اےئر پورٹ ویران ہوچکے ہیں یہی بلوچستان کی بے پناہ ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اب ہمارے وزیر جہاز رانی صاحب نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ ملک میں فیری سروس چلائیں گے۔ 1950ء کی دہائی تک گلف ممالک اور بلوچستان کے ساحلی شہروں اور بلکہ کراچی کے درمیان یہ سروس چلا کرتی تھی وہ تمام بند کردی گئیں ۔ کیوں ‘ کس لئے ‘ کوئی نہیں جانتا۔ موجودہ سیاسی اور فوجی صورت حال کے پیش نظر کوئی کمپنی فیری سروس میں سرمایہ کاری کرنے کو تیا رنہیں ہوگا البتہ ایک بات ممکن ہے کہ گلف میں جہاز کی مالکان سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی سروس بلوچستان کے ساحل اور کراچی تک چلائیں صرف یہی ممکن ہے پاکستان خود اس قابل نہیں ہے کہ وہ فیری سروس شروع کرے ۔ البتہ بڑے بڑے مال بردار اور ماہی گیری کی کشتیوں کو کراچی اور بلوچستان کے ساحل کے درمیان فیری سروس میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مگر پھر بھی کم سے کم کشتیوں کے مالکان اس بات پر راضی ہوں گے یا اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کریں گے۔ بلوچستان میں صرف روڈ ٹرانسپورٹ موجود ہے جو کسی حد تک موثر ہے اور لوگوں کو شہروں کے درمیان سفری سہولیات فراہم کررہی ہے ۔ روز اول سے روڈ ٹرانسپورٹ خصوصاً مسافر بس سروس پر جرائم پیشہ افراد اور اسمگلر حضرات کا زبردست اثر ورسوخ نظر آیا ۔ وہ مسافروں کے بہانے اسمگلنگ بھی کرتے تھے ان میں منشیات ، تیل اور دوسری اشیاء شامل ہیں ۔ ایک مخصوص سیاسی پارٹی صرف اور صرف اسمگلنگ کو فروغ دینے کے لئے کسی نہ کسی بہانے چمن سے کوئٹہ تک جلوس نکالتی تھی اس جلوس میں سینکڑوں گاڑیاں ہوتی تھیں اور مسافر ایک دو ہوتے تھے ان سب میں اسمگلنگ کا سامان لدا ہوتا تھا جو کوئٹہ کی بڑی منڈی میں لا کر فروخت کیا جاتا تھا۔ اب بھی بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں مسافر بسوں میں ڈیزل اور پیٹرول کو مسافروں سے زیادہ اہمیت دی جا تی ہے جب بس کسی چیک پوسٹ پر ڈیزل اسمگلنگ کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو بڑی تعداد میں مسافر بھی اس چیک پوسٹ پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے نظر آتے ہیں گویا یہ جرم بس کے مالک نے نہیں مسافروں نے کیا ہے، آئے دن یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ مریض ‘ بوڑھے ‘ بچے اور خواتین پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں مگر ان کوپوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اکثر واقعات میں مک مکاؤ ہوجاتا ہے کچھ لے دے کر بس اور مسافروں کو گھنٹوں بعد روانہ کردیا جاتا ہے ۔ حکومت نے مسافر بسوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پر پابندی لگائی ہوئی ہے خصوصاً لسبیلہ کے واقعہ کے بعد جس میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں تھیں ۔ آجکل یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے یہ بلوچستان حکومت اور ایف سی کی ذمہ داری ہے کہ کسی طرح بھی مسافر بسوں میں ڈیزل اور پیٹرول کی اسمگلنگ کی اجازت نہ دے، بس سرکاری فوری طورپر ضبط کی جائے ورنہ خدانخواستہ کسی بھی پیش آنے والے واقعہ کی ذمہ داری صرف اور صرف صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں پر ہوگی ۔