بلوچستان کی نامور علمی ،ادبی اور ترقی پسند سیاست کے سرخیل۔میر عبداﷲ جان جمالدینی پون صدی زبان، علم وادب اور معاشرے کی بھر پور خدمت سرانجام دیتے ہوئے96 سال کی عمر میں 21ستمبر2016ء کی رات ہم سے جسمانی طور پر جداہوگئے۔وہ اپنی گراں قدر تعلیمی، صحافتی، ادبی اور سماجی خدمات کی بدولت تاابداہل بلوچستان اور ملک کے ترقی پسند حلقوں کے دلوں میں راج کرتے رہیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے سنگت یعنی رفیقِ حیات کے بغیر زندگی کے آخری ایام تنہائی میں گزارنا مشکل ہوجاتا ہے ۔اس امر کو عبداﷲ جان کی رفیقہ حیات نے سترسالہ رفاقت کے خاتمے کے چند گھنٹوں کے بعد بلوچ وفاداری کی سچائی کو ثابت کرکے جان جان آفرین کے سپرد کردی۔یوں دونوں مرحومین کو بلوچستان کے مرد خیز علاقے نوشکے کے کلی بٹو میں ایک دوسرے کے پہلو میں سپردِ خاک کردیا گیا۔
میر عبداللہ جان جمالدینی ایسی ہمہ جہت اور مقبول شخصیت تھے جن کی زندگی میں 6فروری 2005کو ان کی81ویں سالگرہ کا فقید المثال جشن منایا گیا ۔اور یوں ان کی زندگی میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ۔اکادمی ادبیات کوئٹہ اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے مشترکہ طورپر (باہمی تعاون سے) اس جشن کا اہتمام کیا ۔اس پروقار تقریب میں اہل دانش ،اہل قلم ،سیاسی اورسماجی شخصیات نے میر صاحب کی علمی ،ادبی اور سماجی خدمات پر سیر حاصل روشنی ڈالی ۔ان پر محبت کے پھول نچھاور کئے گئے اور عقیدت کے متعدد شیلڈز پیش کئے گئے ۔
میر عبداللہ جان نوشکی سے ساڑھے پانچ کلو میٹر مغرب میں واقع رخشانی قبیلہ کی ایک شاخ کے نام سے موسوم’’جمالدینی‘‘ گاؤں میں11رمضان المبارک 1340ہجری (بحوالہ والدخود میر خان جان مرحوم)اور بحوالہ برادر عبدالواحد آزات جمالدینی درج اسکول سند12-8-24 کو اس جہان رِنگ وبو میں آشکار ہوئے ۔
آپ نے دینی ابتدائی تعلیم اپنے چچا خان صاحب فقیر جان سے مقامی مدرسے میں حاصل کی 1938ء میں مڈل سکول نوشکی سے مڈل پاس کرنے کے بعد 1940-39ء میں سنڈیمن ہائی اسکول پشین سے پاس میٹرک کیا ۔(یادرہے کہ سنڈیمن اسکول کوئٹہ زلزلے کے بعد پشین شفٹ کیا گیا تھا) اور بی آنرز فارسی کرنے کے بعد،1945ء میں اسلامیہ کالج پشاور سے آنرز کیا۔1975ء میں بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے اُردو اور1988ء میں ایم اے بلوچی کا امتحان پاس کیا ۔
واضح ہوکہ میر عبداللہ جان نے دوشادیاں کی تھیں ۔پہلی شادی1944ء میں اپنے چچاخان صاحب فقیر جان کی صاحبزادی سے اور دوسری شادی 1970ء میں جام میرخان کی دختر نیک اختر سے کی ۔اور یوں شہزادہ عبدالکریم خان احمدزئی کے ہم زلف بنے۔
میر عبداللہ جان جمالدینی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نائب تحصیلدار کی حیثیت سے سرکاری ملازمت اختیار کی ۔لیکن بلوچوں پر برطانوی سامراج کا جبر واستبداد اور زندگی کے ہر شعبے میں بلوچوں کے ساتھ ناانصافی اور بلوچوں کی کم مایگی اور ذلت وخواری دیکھ کر ملازمت سے1950ء میں استعفٰی دے کر سیاست کے پرخار میدان میں اُتر آئے اور نیشنل عوامی پارٹی (نعپ) کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سفرکا آغاز کیا ۔اور اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے بلوچوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ایوب خان کے دور میں حکومت مخالف عنصر قرار دے کر اسے میر غوث بخش بزنجو ،نواب اکبرخان بگٹی ،محمد عثمان کاسی مع دیگر ساتھیوں کے پابند سلاسل کردیا گیا ۔
علمی ادبی خدمات
طبیعت میں ادب سے رغبت اور ذوق نے انہیں بلوچی اور براہوئی کے علاوہ انگریزی اُردو،پشتو اور فارسی کتب کے مطالعہ کا شائق بنایا اور یوں اسے اُردو ،بلوچی،براہوئی ،سمیت فارسی اور انگریزی پر بھی ناقابل رشک قدرت حاصل ہوئی اورانہوں نے ان زبانوں میں مکالے لکھے ۔
میرصاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1950ء میں میکسم گورکی کی کہانی ’’تیل کا بادشاہ ‘‘ کے ترجمے سے کیا ۔اس مضمون کی اشاعت سے حوصلہ پاکر انہوں نے گورکی سمیت چیخوف ۔کرشن چندر ،ٹالسٹائی ،صدرالدین عینی وغیرہ جیسے نامور ادیبوں کی تحریروں کا ترجمہ کرکے شائع کرائے۔ اسی طرح ترقی پسند دانشور سید سبط حسین کی زیرنگرانی شائع ہونے والے جریدہ ’’لیل ونہار‘‘میں بلوچی ادب اور دیگر ترقی پسند موضوعات پر مقالے اور مضامین لکھتے رہے۔
1951ء میں جب بلوچی ادبی انجمن ’’بلوچی ءِ دیوان‘‘ قائم ہوئی تو میر گل خان نصیر اس کے صدر ،لالہ غلام محمد شاہوانی نائب صدر اور میر عبداللہ جان جمالدینی اس کے جنرل سیکرٹری بن گئے ۔
1950ء میں میرصاحب بلوچستان کے علم ودانش اور پختہ نظریات اور ترقی پسند ادب کے گہوارہ ’’لٹ خانہ‘‘ کے ممبر بنے ۔ جہاں میر گل خان نصیر ،بابو شورش ،میر غلام محمد شاہوانی ،عبدالرحمٰن کُرد ، انجم قزلباش ،شیر محمد مری ،عبدالصمد اچکزئی ،میر بہادر خان بنگلزئی، ملک عثمان کاسی، ڈاکٹر خداداد ،کمال خان شیرانی، آزاد جمالدینی ۔محمد حسین عنقاء اورنادرقمبرانی جیسے ترقی پسند اور وطن دوست جوانوں کی رفاقت میں علمی ادبی سیاسی،اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
1952ء میں آپ لالہ غلام محمد شاہوانی کے نوائے وطن میں بحیثیت نائب مدیر کام کرتے رہے ۔
1956ء میں آزاد جمالدینی کے ’’ماہتاک بلوچی کراچی‘‘ کے اجراء پر اس سے منسلک ہوکر اس کی معاونت کی ۔اور اس دوران سویت مرکز اطلاعات وپبلی کیشن میں بھی بطور ترجمہ نویس ملازمت کی ۔
ٍٍ میر صاحب بلوچی اکیڈمی سے ایک طویل عرصے تک منسلک رہے ہیں اور بحیثیت چیئرمین، بلوچی اکیڈمی سے متعدد تاریخی ،تحقیقی کتابیں چھپوائیں ۔اسی طرح میر صاحب نیشنل بُک فاؤنڈیشن اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ممبر کی حیثیت سے بلوچی زبان کی پر خلوص مدد کی۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر کے ادبی پروگراموں کے توسط سے بلوچی زبان کی خدمت کی ۔
آپ1974ء سے1988ء تک بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ پاکستان سٹڈیز کے سربراہ رہے۔
متعدد سیاسی ،سماجی اور ادبی شا ہپاروں کے علاوہ ان کی مندرجہ ذیل کتابیں بھی منظر عام پر آئی ہیں ۔
1۔دیہات کے غریب ،ترجمہ و۔ا۔لینن(1971)اور دوسرا ایڈیشن( 2003)
2۔کُردگال نامک (ہمراہ مرحوم نادرقمبرانی) (تاریخ بلوچ) (1994)
3۔مُرگ مینا (فقیر شیر جان کے اشعار کا مجموعہ ) (1994)
4۔لٹ خانہ (1996)
5۔شمع فروزاں(2006)
6۔بلوچستان میں سرداری نظام(2000)
بیرونی ممالک دورے
میر عبداللہ جان جمالدینی ایک بین الاقوامی سکالر تھے جس نے مختلف اوقات میں روم ،اٹلی ،سویڈن ،ناروے ،لندن ،نیسلا ،اور ایران بھی گئے اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں لیکچر ز بھی دئیے ۔
ایوارڈز
فروری 1990ء میں وفاقی حکومت نے جمہوریت کے فروغ میں ادبی خدمات انجام دینے کے صلے میں جمہوری ادبی ایوارڈ اور گولڈ میڈل بھی دیا 1990ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کی جانب سے صدارتی ایوارڈ سے نوازے گئے 1991ء میں بہترین لکھاری اور 1992ء میں آپ کو باچا خان ادبی ایوارڈ دیا گیا ۔
میر عبداللہ جان خاندانی آدمی تھے معاشرے کے ذمہ دار فرد تھے اپنے نیک صالح اور فرمانبردار بیٹوں میر جیئند خان، میر بالاچ خان اور میر دوستین خان وچاربیٹیوں کی خدمت گزاری میں بھر پور معاشرتی زندگی گزاری ۔ وہ کنبہ پرور بھی تھے اس لئے ان پر کچھ معاشرتی ذمہ داریاں تھیں ،خاص کر ان کے مرحوم بھائی آزاد جمالدینی کے پسماندگان میں جن کی دیکھ بھال اور کفالت کرنے والا ان کے سوا کوئی اور نہ تھا ۔
میر عبداللہ جان جمالدینی بحیثیت ترقی پسند سکالر سماجی ناانصافی اور طبقاتی کشمکش اور استحصال پسندوں کے خلاف بھر پور انداز میں لڑتے رہے ۔ان کے ہاں قدیم اور فرسودہ نظام زندگی کے خلاف بغاوت کا ایک بے پناہ جذبہ کا رفرما تھا اس کی عقابی نظریں عوام پر تھیں ،معاشرے کو غیر مطمئن پاتے ،لوگوں کو امن وعدل سے محروم جبر واستحصال میں سسکتے دیکھ کر ان معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف مستقل جہاد کے ساتھ اپنے جسمانی عوارض سے بھی برسرپیکار رہے ۔ہمہ جہت جہد مسلسل کی ایک زندہ علامت تھے ۔
مغربی مفکر کولنگ ووڈ (Colling Wood)لکھتا ہے:249
’’اگر کوئی شخص غور وفکر کرتا ہے تو اس سے دوسرے ذہن بھی متاثر ہوتے ہیں اور تاریخ اس ذہنی و شعور ی فکر کو محفوظ رکھ کر دوسروں تک پہنچاتی ہے ‘‘۔
ہمہ جہت شخصیت اور فہم وفراست کے مالک میر عبداللہ جان جمالدینی کے افکار ونظریات قیمتی اثاثہ ہیں جنہیں محفوظ کرنا اور آگے بڑھانا قومی مفاد کے عین مطابق ہے ۔ ان کی ذات میں جذبہ حب الوطنی سے مزین علم وتجربہ دونوں جمع ہوگئے تھے ان کا تجربہ بھر پور اور علم وسیع تھا ان کے اندر گہرا وجدان ،عمیق احساس اور افکار کا انضباط تھا جو ایک مفکر کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے ۔ان کی فکر اورباطنی کیفیت کی شعاعیں ان کی ذات سے نکل کر لوگوں کو متاثر کرتی تھیں ۔میر صاحب کی سوچ وفکر اور ذہن کشا تحریریں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔بلوچ قوم ان کی خدمات اور قربانیوں کوہمیشہ عزت واحترام سے یاد رکھے گی۔
(میر عبداﷲ جان جمالدینی):: ہمہ جہت ایک جہدِ مسلسل کی ایک زندہ علامت تھے
وقتِ اشاعت : September 25 – 2016