صحافت جیسے اہم شعبہ میں پڑھے لکھے لوگ ہی آتے ہیں اور میڈیا کے اصول و ضوابط سے واقفیت رکھتے ہوئے خبرکی نوعیت کے مطابق اسے نشر کرتے ہیں۔ یہ میڈیاکی ذمہ داری ہے کیونکہ کروڑوں لوگ میڈیاکو محض اس لیے دیکھتے ہیں کہ وہ حالات سے باخبرر ہیں اور تمام صورتحال کی معلومات ان کے پاس ہو۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ اب ہمارے یہاں نہیں ہوتااب میڈیا خبروں سے زیادہ غیر اہم چیزوں کو دکھاتا اورنشر کرتاہے جس کی مثال مختلف شخصیات کی شادی کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے خاص کر اس وقت جب شادی کسی کرکٹر کی ہو تو ہماری میڈیا اس کی شادی کو لمحہ بہ لمحہ کوریج کرتی ہے اور اس کے لیے میراتھن نشریات چلاتی ہے اس کی ایک مثال شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی تھی۔اس میڈیا کے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے کہ وہ ایک چیز چیز دکھاتا ہے اور اس پر تبصرے کرتا ہے یعنی دلہا کس طرح لگ رہاہے، کس طرح کے کپڑے زیب تن کیے ہیں، کپڑے کی سلائی کیسی ہے، دولہے کو کس طرح سجایا گیا ہے، کون سے ہیرڈریسر سے بال بنوائے ‘ چہرے پر کیا تاثرات ہیں، شیروانی پہن کر دولہا ہی لگ رہے تھے یا پھر نہیں‘؟دلہن کاجوڑا کہاں سے سلوایاگیا، دلہن کے کپڑے کیسے ہیں، کپڑوں میں کیسے لگ رہی ہے، میک اپ میں کوئی کثر باقی ہے یا نہیں، دلہن کودیکھ کردولہا شرما رہا تھا یا دلہن دیکھ کر شرما رہی تھی؟ نکاح سے لیکر رخصتی تک پورے نیوز بلیٹن میں انہی باتوں کو اجاگر کیاجاتا ہے۔ کیا ہم اسے دانائی کہہ سکتے ہیں یا جاہلانہ عمل جو عوام کو حالات سے دور لے جاکر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں گھر سے لیکر شادی ہال تک گھما رہے ہیں اور بے چاری عوام جو دیکھنے کو ملے وقت گزارنے کیلئے دیکھ لینگے ۔اگر زیادہ تفریح ملی تو ٹھیک وگرنہ کوئی فلم دیکھ کر گزارا کرنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ایک عظیم انسان عبدالستار ایدھی جن کی خدمات سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا جب زندہ بھی تھے تو اس کا ادارہ عوام کی خدمت میں مصروف عمل تھا اور جب وہ رحلت فرما گئے تب بھی وہ ادارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا اور ایدھی صاحب کا نام پکارا جارہا تھامگر جس دن اس کی تدفین ہورہی تھی تو ایک رپورٹر نے گورکھن کا کردار ادا کیا۔ عبدالستار ایدھی کے قبر کے اندر لیٹے ہوئے بیپر یعنی لائیو نیوز دے رہے تھے کہ قبر کتنے فٹ اور گزکا ہے۔ اگر اس عمل پر ذرا سا غور کریں تو ایسے لگتا ہے کہ کوئی ڈگی ڈگی بجھارہا ہے اور فنکاری کررہا ہے بجائے یہ کہ عبدالستار ایدھی کی تدفین کے متعلق خبر دے اور وہاں موجود افراد کے تاثرات بیان کریں اُن کی زندگی کے حوالے سے بتائے مگر نہیں یہ مداری گری ضروری ہے کیونکہ سب سے پہلے ہم نے قبر کے سائز کا بتایا۔یہ میڈیا کی حالت ہے جب لائق لوگ میڈیا سے باہر رہینگے اور نالائق کو ترجیح دی جائے گی تو کبھی بھی اس میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ چند سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں جو اینکر پرسن اور تجزیہ کار اسی میڈیا سے وابستہ ہیں وہ صرف تنقید کرکے اپنی جان کیوں چھڑاتے ہیں۔ایڈیٹوریل پالیسی میں ان کا ہی اہم کردار ہوتا ہے کیا یہ پالیسی میں تبدیلی لانے کیلئے بورڈ کے سامنے بات نہیں کرسکتے ،کیا یہ نہیں بول سکتے کہ شادی کے صرف چند سلائیڈ ہی کافی ہیں مکمل شادی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے جو ہمارے صحافتی اقدار اور اصولوں کے منافی ہے۔ شادی کے پہلے روز سے لیکر رخصتی تک اس کے آگے توموقع نہیں دیا جاسکتا کہ کیاہورہا ہے اسکی کوریج ہماری سبکی ہے۔ کسی اہم شخصیت کی وفات پر خبرکواہمیت دینی چاہیے اس کی شخصیت پر بات کرنی چاہیے نہ کہ اس کے قبر کے اندر لیٹ کر اُس عظیم شخص کی تدفین کو تماشابنایاجائے۔اگر ان معاملات پر نامور صحافیوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے جاتے ہیں اُن کی نہیں سنی جاتی تو خدارا اپنے پروگرام میں بھی یہ ڈرامہ نہ رچائیں کہ عمل غلط ہے کیونکہ یہ سب کچھ آپ کے ہی چینل سے نشر ہور ہاہے جسے کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں۔ آئند ہ بھی یہ نہیں لگتا کہ میڈیا خبروں کو زیادہ اہمیت دے گی کیونکہ انہیں ریٹنگ کی لگی ہوئی ہے کہ کس طرح سب سے پہلے ہم اس فلم کو قسط وار دکھائیں۔ جب علمی اداروں میں جاہلانہ عمل جاری رہے گا تو عوامی مسائل سمیت ملکی حالات کا کسی کو اندازہ نہیں ہوگا‘ اگریہ کہاجائے کہ نالائق لوگوں کو اہم پوسٹوں پر لاکر بٹھایاگیاہے جو مالکان کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں اور اُن کی ہر بات پر ’’یس سر‘‘ کہتے ہیں تو یہ سبکی جاری رہے گی اور خبروں واہم ایشوز سے عوام بے خبر ہی رہے گی ۔اسے پھر میڈیا کی سنجیدگی نہیں بلکہ سبکی ہی کہاجائے گا اور اس بات پر ذی شعور افراد یہی بولیں گے کہ میڈیا میں جاہل افراد بیٹھے ہیں اس کے سدھار کے کوئی آثار نظرنہیںآتے۔
میڈیا کی غیر سنجیدہ رپورٹنگ
وقتِ اشاعت : September 27 – 2016