19ویں سارک کانفرنس 9اور10 نومبر کواسلام آباد میں منعقد ہوناتھی مگر بھارت،افغانستان،بنگلہ دیش اور بھوٹان کی عدم شرکت کے باعث اسے ملتوی کردیا گیا۔سارک کانفرنس میں 8ممالک شامل ہیں جن میں پاکستان،بنگلہ دیش،بھارت،افغانستان،بھوٹان،نیپال،سری لنکا اور مالدیپ شامل ہیں۔ اس کانفرنس کاانعقاد پاک بھارت کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے انتہائی سود مند ثابت ہوسکتا تھا مگر اسلام آباد میں منعقد ہونے کی وجہ سے بھارت نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ علاقائی تعاون اور انتہاء پسندی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جبکہ بنگلہ دیش کی جانب سے کہا گیا کہ بیرونی مداخلت کے باعث سارک کانفرنس میں شرکت نہیں کررہے ۔اہم بات یہ ہے کہ انہی خدشات کا اظہار پاکستان بھی کررہا ہے مگر سارک کانفرنس جو پاکستان میں منعقد ہونا تھاپاکستان نے تمام کشیدہ صورتحال کو ایک طرف رکھتے ہوئے کانفرنس کے انعقاد کے انتظامات کئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے کہاگیاہے کہ سارک کانفرنس پاکستان میں ہی منعقد ہوگا کسی اور ملک میں نہیں۔ اگر تمام صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو اس وقت دنیا جنگی حالات سے گزررہی ہے اور خاص کر ہمارے خطے کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔سارک کانفرنس میں شرکت کرکے ہی بھارت اوربنگلہ دیش اپنا مؤقف بیان کرتے اور دیگر ممالک بھی ان معاملات پر اپنی رائے دیتے اور جو تناؤپیدا ہوا ہے اس میں کمی واقع ہوسکتی تھی۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے حال ہی میں کوئٹہ خود کش دھماکے نے پورے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا اس کا قصور وار کون ہے یہ وہی مائنڈ سیٹ ہے جو اس خطے میں دہشت گردی کو ہوا دینا چاہتاہے اورکشیدگی کومزید بڑھاوا دینے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے سارک کانفرنس سمیت دیگرفورمز جن میں اسلامی ممالک سمیت دنیا کی دیگر ممالک شامل ہیں وہ بہترین پالیسی مرتب کرتے ہوئے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دور کرنے اور قربتوں کو بڑھانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مگر افسوس اسی طرح یہ رویے برقرار رہے تو ہم جنگی حالات کی طرف جائینگے جس سے پورا خطہ شدید متاثر ہوکر رہ جائے گا۔ آج بھی ہمارے سامنے دیگر ممالک جو جنگی حالات کا سامنا کررہے ہیں شدید متاثر ہیں اور اب وہ بھی مذاکرات ر زوردے رہے ہیں کیونکہ جنگ صرف تباہی لاسکتا ہے خوشحالی نہیں۔ اس سے قبل جتنی جنگیں لڑی گئیں مگر تمام لاحاصل رہیں۔ ایک دوسرے پر دباؤبڑھانے کیلئے اہم کانفرنسز کو ملتوی کرنا نیک شگون نہیں ۔ بھارت اور بنگلہ دیش کا جو مؤقف ہے وہی پاکستان کا بھی ہے ‘ پاکستان کے تمام صوبوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال سے سے نکلنے کیلئے تمام ہمسایہ ممالک کو دہشت گردوں کے خلاف ایک ہی پالیسی اپنانی ہوگی۔ رہی بات پاک بھارت مسائل کی تو اس کا حل بھی مذاکرات سے ہی نکالاجاسکتا ہے جس طرح ماضی میں کشیدگی کو کم کرنے کیلئے معاہدے ہوئے اوردونوں ممالک میں قربت بڑھنے لگی مگر اب ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ افغانستان،بھارت اور بنگلہ دیش پاکستان کے متعلق ایک ہی پالیسی پر گامزن ہیں جو کہ اچھا پیغام نہیں ہے۔ اگر یہی سارک کانفرنس کسی دوسرے ملک میں منعقد ہوتا تو کیا بھارت ،بنگلہ دیش اور دیگر یہی مؤقف اختیار کرتے جو پاکستان میں منعقد ہونے والے کانفرنس کے حوالے سے کررہے ہیں؟ نہیں کیونکہ حال ہی میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اِن کی شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسلام آباد کے سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار صرف پاکستان سے بغض کی وجہ سے کررہے ہیں جو کہ غلط رویہ ہے۔ سارک کانفرنس کے تمام ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانفرنس کے جلد انعقادپر زور دیں اور موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حالات کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ اس خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے اور جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوسکیںیہی تمام ممالک کی بھلائی اور اس خطے کیلئے بہتر ہے۔
سارک کانفرنس کاالتواء
وقتِ اشاعت : October 1 – 2016