کراچی: ہمارے یہاں حکمرانوں نے ہمیشہ اداروں کو پرائیوٹ کرنے کو محض اس لیے جواز بنارکھا ہے کہ سرکاری سطح پر کرپشن اور لاپرواہی برتی جاتی ہے جس سے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں، چندماہ قبل جب پی آئی اے کو پرائیوٹ کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتوپی آئی اے کے یونین اور ورکروں کی جانب سے اس کا شدید ردعمل سامنے آیا، مگر حکومت اس بات پر بضد رہی کہ پی آئی اے مسلسل خسارے میں جارہی ہے اس لیے اسے پرائیوٹ کرکے ایک بہترین منافع بخش ادارہ بنایاجائے گا جس سے نہ صرف سفری سہولیات بلکہ ہوائی جہازوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے گی اور ملازمین کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا مگر یونین اور ملازمین اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس سے قبل بھی مختلف اداروں کی پرائیوٹائزیشن کی گئی تو اس کا بھرپور مالی فائدہ سرمایہ لگانے والوں کے حصہ میںآیا جبکہ ملازمین کی بڑی تعداد کو ملازمتوں سے بے دخل کیا گیا اور اُن کو دیے گئے مراعات بھی چھین لیے گئے‘ ورکرز یونین کو دباؤ میں رکھاگیا تاکہ شیئرزاولڈرز کے سامنے کوئی بھی سراٹھانے کی جرأت نہ کرے۔ کے الیکٹرک جب سے پرائیوٹ ادارہ بناہے شیئرزاولڈرز اور آفیسران عوام پر بھاری بھرکم بجلی کے بلوں کے کروڑوں روپے سے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، کراچی کی سڑکوں پر وی آئی پی گاڑیاں جن کی قیمت 10 سے 60لاکھ روپے ہے جو آفیسران کے پک اینڈ ڈراپ کیلئے استعمال ہورہی ہیں اس کے علاوہ انہی گاڑیوں پر آفیسران کی فیملی سبزی،گوشت سمیت دیگر شاپنگ اور پکنک کیلئے استعمال کرتی ہیں جس پر ماہانہ پانچ کروڑ روپے سے زائد اخراجات آتے ہیںیہ گاڑیاں کے الیکٹرک کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اپنے منظور نظرٹھیکیداروں کے ذریعے کے الیکٹرک نے سینکڑوں مہنگی گاڑیاں ٹھیکہ پر لے رکھی ہیں جبکہ آفیسران اپنی خالص تنخواہ جو بھری بھرکم ہوتی ہے اسے اپنی جیب میں ڈالتے ہیں اور اپنے لیے ذاتی گاڑی تک نہیں خریدتے جو ان کی کرپٹ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔آفیسران کی ان تمام شاہانہ اخراجات کا بوجھ عوام بلوں کے ذریعے دے رہے ہیں۔ کراچی میں لوڈ شیڈنگ 12گھنٹوں سے زائد ہوتی ہے اورکبھی کبھار ٹرپنگ سمیت دیگر حیلے بہانے بناکر شہر کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل کی جاتی ہے تاکہ وی آئی پیز علاقوں میں چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جاسکے حالانکہ شہری مکمل بجلی کا بل دے رہے ہیں مگر ایسا رویہ اس لیے رکھاجارہا ہے تاکہ عوام بھی کُنڈے جیسے کرپشن کا حصہ بن کر کوئی سوال نہ اٹھاسکے اور کرپشن ذہنیت کو پروان چڑھانے کیلئے یہ منصوبہ سازی کا حصہ ہے جس کے پیچھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاطر ذہنیت بیٹھے ہوئے ہیں کہ کرپشن کو کس طرح عام کیاجاسکے تاکہ وہی بساط ہو کہ ’’اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں‘‘ یعنی کرپشن کے خلاف عوام آواز نہ اٹھائے اور اسی طرح زندگی بسر کریں ۔کے الیکٹرک کے اس شاہانہ اخراجات اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ کراچی کے بڑے بڑے ملز کو کُنڈے کے ذریعے بجلی فراہم کی جاتی ہے اورلاکھوں روپے کیش ملزمالکان سے وصول کیے جاتے ہیں جن کا ریکارڈ نہیں بنایا جاتا کیونکہ میٹرکے ذریعے اُن کو بجلی فراہم کرنے سے بل کی مد میں اضافی رقم بن جاتے ہیں اس لیے بااثرملزمالکان اور کے الیکٹرک کے آفیسران ملی بھگت کے ذریعے کُنڈے کا استعمال کرتے ہوئے ایک سنگین جرم کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے بٹوررہے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس عمل کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے کہ کروڑوں روپے کی بجلی استعمال کرنے والے لاکھوں روپے رشوت دیکر چوبیس گھنٹے اپنی فیکٹری چلاسکیں اس میں اہم کردار سیاسی جماعتوں کے اہم ذمہ دار اور بڑے ادارے کے ریٹائرڈ آفیسران جو ان فیکٹریوں میں منیجر کا کردار ادا کرتے ہیں وہ فرنٹ لائن میں آکر دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ کراتے ہیں اور اسی طرح دونوں فریقین اپنے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں اور یہ عمل عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے جو تاحال جاری ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کرکے ان کے حصہ کی بجلی بھی مختلف وی آئی پی ایریاز میں فراہم کی جاتی ہے غریب عوام کو لوڈشیڈنگ سمیت اوور بلنگ کے ذریعے دباؤمیں لایا جاتا ہے تاکہ اُن کی توجہ اس طرف مبذول نہ ہوسکے۔ حکمرانوں کا کے الیکٹرک کے معاملے پر لب کشائی نہ کرنا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کے چہیتے اس گنوانے عمل میں برابر کے شریک ہیں اور شیئرز اولڈرز بھی انہی کے لاڈلے ہیں جن پر ہاتھ نہیں ڈالاجارہا ۔ موجودہ حکومت پی آئی اے کو سدھارنے کی بات کررہی تھی ذرا سی توجہ کے الیکٹرک کی طرف دیں کہ کس طرح اس ادارے میں کرپشن ہورہی ہے اور اس کا بوجھ عوام پر ڈالاجارہا ہے اگر واقعی خلوص دل سے اداروں کوٹھیک کرنے کی بات ہے تو ضروری ہے کہ جن اداروں کو پرائیوٹ کیا گیا ہے اُن سے حساب لیاجائے کہ وہ ملکی خزانے سمیت ملازمین اور عوام کو کیا سہولیات فراہم کررہے ہیں وگرنہ یہی سمجھاجائے گا کہ ہر حکمران جماعت صرف حکومت میں آکر مختلف طریقے سے پیسے بنانے اور اپنے خاص لوگوں کو اداروں کے شیئرز فروخت کرکے اربوں روپے بٹورناچاہتے ہیں اور اس کا سارا بوجھ اورملکی خزانے کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے غریب عوام کاخون چوس کر پورا کیاجاسکے ۔