|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2016

مولانا نیاز محمد درانی ؒ پوری زندگی درس وتدریس اور تعلیم و تعلم سے وابستہ رہے۔حدیث نبوی “علم حاصل کرو ماں کی گود سے گور تک”پرپوری زندگی عمل پیرا تھے۔کم عمری میں محلے کی مسجد میں علم کے حصول سے وابستہ ہوگئے تھے۔ابھی سن بلوغت کونہیں پہنچے تھے کہ گھر سے رخت اقامت کیا او رتلاش علم میں کوئٹہ کے علاقے کلی سردہ، سریاب میں اپنے ماموں ملامحمد رحیم صاحب کے گھر میں سکونت اختیار کی جہاں مقامی مدرسہ میں داخل ہونے کا موقع نصیب ہوا ۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے باقاعدہ علوم اسلامیہ کے حصول کا سلسلہ شروع ہوا۔دینی علوم کی بنیادی کتابوں، جس میں ناظرہ قرآن مجید، قدوری اور پنج کتاب وغیرہ ، کی تعلیم حاصل کی۔بنیادی سطح کی کتب پڑھنے کے بعد اعلیٰ درجے کی کتابیں پڑھنے کے لیے افغانستان کے تاریخی شہر قندھار تشریف لے گئے۔جہاں بابا صاحب کی درس گاہ میں سکونت اختیار کی۔وقت کے جید علماء کرام کی زیرنگرانی علم کی پیاس بجھائی ۔چند برس قندھار میں رہنے کے بعد واپس کوئٹہ آنے کا ارادہ کیا۔سفر کے لیے مالی مشکلات آڑے آ گئیں۔ کچھ دن انگور کے ایک باغ میں مزدوری کی اور جب کچھ رقم جمع ہوگئی تو کوئٹہ روانہ ہوگئے۔ کوئٹہ میں مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ میں داخلہ لیا ، جہاں علوم اسلامی کے ماہر علماء کرام کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور ان کے علم سے فیضیاب ہوئے۔ برصغیر کے عظیم عالم اور مدرس حضرت مولانا عبداللہ اجمیری ؒ سے قرآن ، حدیث اور فقہ پڑھا ۔مولانا عبداللہ اجمیری ؒ نے طویل عرصہ ہندوستان کے شہر اجمیرمیں علم کی روشنی بکھیری ۔طالبان علم یا تو دیوبندسفر کرکے عظیم علماء وقت سے علم کی پیاس بجھایا کرتے تھے۔یا پھر حضرت مولانا عبداللہ اجمیری ؒ کے پاس علم تفسیر ،حدیث اور فقہ کے علاوہ علم کلام اور منطق کی پیچیدہ کتب پڑھنے جایا کرتے تھے۔عمر کی آخری حصہ میں مولانا اجمیریؒ نے کوئٹہ ہجرت کی اور رحلت تک کوئٹہ میں رہے ۔مولانا نیاز محمد درانی انکے قابل ترین شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔ان کے علاوہ مولانا درانی کو ایک اور نابغۂ روزگار عالم حق و صداقت اور مجتہد وقت مولانا جلال الدین غوریؒ سے استفادہ علم کا موقع ملا ۔ مولانا جلال الدین غوریؒ کی شاگردی میں مولانا درانی نے علم تفسیر ،علم حدیث وفقہ کے علاوہ علم کلام ،منطق اور فلسفہ کا درس لیا ۔ طویل عرصہ تک انکی شاگردی میں رہے۔یہ رشتہ مولانا جلال الدین کی رحلت تک قائم رہا۔ مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ کوئٹہ سے سند فراغت حاصل کرنے پر اکتفانہ کیا اور کچھ عرصہ دارلارشاد چمن پھاٹک کوئٹہ کے مہتمم مولانا عبدالعزیز ؒ کی صحبت میں بھی رہے۔ ان سے اسلامی سیاست ا ورمعیشت کے ساتھ ساتھ فلسفہ کی کتابیں پڑھیں۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے مولانا درانی نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ،سید قطب ،مولانا حمید الدین فراحی اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے جلیل القدرعلماء کا مطالعہ بھی کیا ۔ انھوں نے سید جمال الدین افغانی اور علامہ محمد اقبال کا بھی باریک بینی سے مطالعہ کیا اور سا تھ ہی اخوان المسلمین اور دیگر عالمی اسلامی تحریکوں کی کتب اور لٹر یچر پڑ ھنا شروع کئے۔ دوران طالب علمی مولانا درانی کسی بات پر ناراض ہوئے اور انھوں نے مدرسہ جانا ترک کیا۔مولانا عبدالعزیز ؒ کو اس بات کا احساس تھا کہ ایک قابل اور زیرک طالب علم کا مدرسہ نہ آنا مستقبل کے ایک مبلغ اسلام کو ضائع کر نا ہوگا۔لہذا انھوں نے مولانا درانی کے پاس اُن کی رہائش گا ہ جانا شروع کیا اور باقی ماندہ کتابیں اس طرح پڑھائیں کہ استاد شاگر د کے پاس یعنی کنواں پیاسے کے پاس خود جایا کرتے تھے۔ مولانا نیاز محمد درانی ؒ نے مدرسہ چمن پھاٹک کوئٹہ میں کچھ عرصہ مدرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ۔ مزید علم کی پیاس بجھانے کے لیے انھوں نے پشاور کا رخ کیا جہاں مدرسہ دارالعلوم سرحد پشاور میں داخلہ لیااور علوم میں تخصص اورفنون اسلامی پر عبور حاصل کیا ۔ علم تفسیر ،حدیث،فقہ ،اصول فقہ اور علم منطق وکلام سے فیضیاب ہوئے۔درالعلوم سرحد پشاور سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ درالعلوم حقانیہ اکھوڑہ خٹک تشریف لے گئے۔ اس مدرسہ میں انھوں نے باقاعدہ داخلہ تو نہیں لیا،مگر قرآن و حدیث اور فقہ کا امتحان دیا اور کامیاب قرار پائے۔ علم سے فراغت کے بعد غمِ روزگار دامن گیر ہوا اور پاکستان آرمی میں بطور معلم ملازمت اختیار کی ،1970 تک پاک فوج میں خدمات سرانجام دیں۔ اور بہت جلد ان کا شہرہ ایک پر جوشِ خطیب و مقرر کے طور پر ہوا ۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران مولانا درانی کی پوسٹنگ لاہور میں تھی۔ فوج میں دوران ملازمت انہوں نے کوئٹہ، پشاور ،اور لاہور میں وقت گزارا ۔1970میں پاک فوج سے مستعفی ہوگئے اور جامع مسجد چلتن مارکیٹ کوئٹہ چھاؤنی میں بطور خطیب خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔ 1970سے 1979تک کوئٹہ کے ممتاز تعلیمی ادارے اسلامیہ ہائی اسکول کوئٹہ، جسکو قائد اعظیم محمد علی جناح نے چھوٹاعلی گڑھ کا خطاب دیا، میں عربی ،فارسی او ر اُردو مضامین پڑھائے۔ اسی طرح دینی علوم کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور مسجد میں طالبان علوم اسلامی کو قرآن ، حدیث اور فقہ پڑھانے کا اہتمام کیا ۔کوئٹہ میں مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد قاری غلام بنی صاحب نے رکھی جس کے پہلے مدرسین میں مولانا درانی شامل تھے اور بلامعاوضہ خدمات سرانجام دیں ۔انھوں نے تفسیر قرآن اور بخاری اور مسلم شریف کی کتب پڑھائیں۔ علم تفسیر کی سب سے بڑی کتاب تفسیر جلالین کا درس مدرسہ ہذا میں دیتے تھے ۔ انہی دنوں میں مولانا نور النبیؒ بھی وہاں استاد تھے۔کچھ عرصہ بعد مدرسہ میں درس کا سلسلہ ترک کیااور مسجد میں علم و تعلیم کا اہتمام کیا ۔ 1971میں مولانا نیاز محمد درانی ؒ نے چلتن مارکیٹ کوئٹہ کینٹ کی امامت چھوڑ دی اور ممتازسیا ستدان اور کاسی قبیلے کے رہنماء عبدالصادق خان کاسی کی خواہش اور اصرار پر جامع مسجد قلعہ کاسی کی خطابت و امامت کی ذمہ داری سنبھال لی ۔جہاں وہ 1971سے 1990تک رہے ۔ اس دوران ملک بھر سے طالب علم کوئٹہ کے مختلف مدارس میں علم کی پیاس بجھانے کے لئے آتے تھے۔اعلیٰ درجے کی کتب پڑھنے کیلئے اکثر طالب علم جامع مسجد قلعہ کاسی جایاکرتے تھے۔ اور مولانا درانی ؒ کے علم سے فیضیاب ہواکرتے تھے۔پاکستان کے علاوہ افغانستان کے مختلف علاقوں کے طالب علم بھی ان کے تلاذمہ میں شامل تھے۔قندھار، ہلمند،ہزارہ جات ،جلال آباد ،اورزگان ،کابل اور پنج شیر کے طلباء ان سے حصول علم کے لیے کوئٹہ کا رخ کیا کرتے تھے۔ بعض طلباء قلعہ کاسی مسجد کے حجروں میں قیام پذیر ہوا کرتے تھے جبکہ بعض شہر کے مدارس سے حاضر ہوا کرتے تھے۔ مولانا نیاز محمد درانی ؒ ماہر تعلیم تو نہ تھے، مگر علم کی روشنی بکھیرنا انکی زندگی کا مقصد ٹھہرا ہوا تھا۔وہ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کے حصول کیلئے طلباء پر زور دیا کرتے تھے۔اس بات کے قائل تھے کے درس نظامی اور مدارس دینیہ میں رائج نصاب تعلیم کوجدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ نصاب میں عصری مضامین شامل کرکے طلباء کو جدید دور کے چیلنجز کیلئے تیار کریں۔ ایک اہم نکتہ جس پر وہ ہمیشہ زور دیا کرتے تھے کہ جد ید سا ئنسی دور میں علماء اور مدارس کو علم کلام کانئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ایک جدید علم کلام ،سائنسی علوم جیسے کے طبیعات ،کیمیا ، حیاتیات، ریاضی اور فلکیات کی روشی میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ نئے دور میں اُبھرنے والے سوالات اور شبہات کا جواب دیا جاسکے ۔ سائنسی بنیادوں پر معترضین اسلام کا مقابلہ کیا جاسکے اور نوجوان ، تعلیم یافتہ طبقے کو دشمنان اسلام کے حصار سے بچایا جاسکے۔ پاکستان میں رائج نظام تعلیم کے وہ ناقد تھے۔ یہ ایسانظام ہے جو قوم کو دین اسلام کی اصل روح سے نا بلد کرتا ہے اور جدید تقاضے بھی پورے نہیں کرتا ،ان کا موقف تھا کہ اس نظام سے جدت کی بجائے جدید یت اور مغربی کلچر کی پر چار ہوتی ہے۔ طلباء تعلیم یافتہ کم ہوتے ہیں جبکہ غیر اسلامی بود وباش اور ثقافت کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ لہذا ضرورت ہے کہ نظام تعلیم کو جدید کیا جائے اور ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جو اسلامی اور اخلاقی اصولوں پر مرتب ہو اور جس کے طفیل سائنس اور سماجی علوم کے ماہرین پید ا ہوسکیں۔ مو لانا نیاز محمد درانی کے ایک شاگرد ، مولوی عبدالنافع اخوند کے بقول کہ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کو جب دینی تعلیم دینا شروع کی تو مولانا درانی ؒ نے ان کو نصیحت کی کہ بچے کو سکول میں بھی داخل کرائیں تاکہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علم بھی حاصل کرسکے اور مقابلہ کے دور میں مقام پید ا کرسکے۔روزگار کے لیے فنون کا جاننا بھی ضروری ہے جو جدید تعلیم کے ذریعے ممکن ہے۔ اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ملاعبدالنافع نے بیٹے کو درس نظامی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرآف فارمیسی بھی کرائی ۔ مولانا درانی ؒ کے شاگردوں میں پاکستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں درس و تدریس سے منسلک علما ء دین شامل ہیں دین کے شعبے کہ علاوہ انجینئر،ڈاکٹر ،بیوروکریٹس ،اساتذہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں ۔ انھوں نے زندگی چراغ علم روشن کرانے میں گزاری۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور حکومت میں فروغ تعلیم کیلئے مسجد سکول پروگرام کے تحت مساجد اور محلوں میں سکول سے رہ جانے والے غریب ونادار بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کو مولانا درانی ؒ نے احسن اقدام قراردیا ۔قلعہ کاسی کی مسجد میں محکمہ تعلیم نے انکے تعاون سے سکول قائم کیا۔ اس اسکول کے استاد، ماسٹر نوراحمد تھے ۔مولانا درانی ؒ وقتاًفوقتاً سکول کا دورہ کیا کرتے تھے۔ محلے اور اردگرد کے باسیوں کو اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرانے کی تاکید کیا کرتے تھے اور مسجد کی منبر کو اس کا رخیر کے لئے استعمال کیا۔ انکے بھرپور تعاون سے وہ سکول کافی عرصہ تک چلتا رہا ۔قلعہ کاسی کی مسجد میں طلباء کیلئے چند حجرے قائم تھے۔ ان حجروں میں علاقے کے نوجوانوں کیلئے فری انگلش لینگوئج کلاسز کا اہتمام کیا گیا ۔اس سینٹرمیں شیر محمد عرف شیرو ماما انگریزی زبان پڑھاتے تھے۔ وہ سینٹر زیادہ عرصہ تو نہ چل سکا ۔مگر اہم با ت یہ ہے کہ مولانا درانی ؒ نے انگریزی زبان مسجد میں پڑھانے کی مخالفت نہیں کی بلکہ جگہ فراہم کی ۔ 15اکتوبر 2012کی شب گیارہ بجے انکی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ۔اس وقت وہ بخاری شریف کا مطالعہ فرمارہے تھے۔طبیعت خراب ہونے پر انھوں نے عینک کھلی کتاب پر رکھ دی اور بیٹے کو آواز دی۔ انھیں کوئٹہ کینٹ کے ہسپتال ،سی ایم ایچ لے جایا گیا جہاں اگلے دن عارضہ قلب کی وجہ سے اُنکاانتقال ہوگیا اور یوں علم پھیلانے والے ایک عظیم عالم اور معلم کا باب بند ہوگیا۔بچپن سے کتاب کا تعلق رہا اور موت سے چند گھنٹوں تک کتاب ہی ساتھ رہی۔ لکھار ی الحمد اسلامک یو نیور سٹی کوئٹہ میں لیکچر ارہے