کوئٹہ : سانحہ سول اسپتال کوئٹہ کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل انکوائری کمیشن نے سانحہ سے متعلق پولیس کی تفتیش کے بعض نکات کو غیر تسلی بخش قراردے دیا دوسری جانب کمیشن نے ایف سی کے جواب پر بھی عدم اطمینان کااظہار کردیاسانحہ کوئٹہ سے متعلق انکوائری کمیشن کی سماعت پیر کے روز ہائیکورٹ کی عمارت میں ہوئی کارروائی کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہاکہ اگرکسی کو ان کی ذات سے کوئی اعتراض ہے تو بتائیں،قانونی طور پر وہ کچھ نہیں کرسکتے انہوں نے کہاکہ یہ انکوائری کمیشن ہے کورٹ آف لاء نہیں، اور ہمارا مقصد سچ کی تہہ میں رکاوٹ کو ہٹانا ہے،یہی کمیشن کا مینڈیٹ ہے، ،تحقیقات کے حوالے سے نتیجے پر پہنچنے کے لئے ہمارے پاس 30 دن ہیں اس حوالے سے ہمیں سب کی مدد کی ضرورت ہے عوام ، وکلاء اور حکومت کی جانب سے جو بھی ہو، معاون و مدد گار ہو سکتا ہے، حکومت یا عوام پوشیدہ چیزوں کو سامنے لائیں حکومت بلوچستان کو سوالنامہ بھجوایا تھا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل کا کہناتھا کہ ہم نے جوابات دئیے ہیں ،کچھ پروقت درکار ہیں،ان کا یہ بھی کہناتھا کہ ایف سی سے جواب مانگا جو ابھی تک موصول نہیں ہواجس پر جسٹس فائزعیسی نے کہاکہ سانحہ کواتنے دن گزرنے کے بعد بھی ابھی تک جواب نہیں آیا،،ایک موقع پر انہوں نے استفسار کیا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی ایف سی کہاں ہیں؟ ایف سی کی رپورٹ کے حوالے سے ان کے ریمارکس تھے کہ کیا یہ رپورٹ دفتر میں بیٹھ کر بنائی ہے؟ ،،ایف سی لاء افسر اور عدالت میں موجود ایف سی اہلکار کو مخاطب کرکے انہوں نے کہاکہ ہمارے ساتھ گیم نہ کھیلیں،ان کاتعلق غزہ بند اسکاوٹس سے تھایاکسی اور سے،آئی جی ایف سی کو بلاو کہ یہ آپ کی کارکردگی ہے،یہ آپ کے لئے وارننگ ہے ورنہ اپنے آئی جی کو بلوانا ہوگا، یہ انکوائری کمیشن ہے، سماعت نہیں کہ آپ تاریخ لے لوان کا کہناتھا کہ ہم مکمل تعاون چاہتے ہیں تو کم از کم مکمل تعاون کریں،آئی این پی کے مطابق سانحہ سول ہسپتال سے متعلق قائم جوڈیشل کمیشن کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ انکوائری کمیشن کامقصد سانحہ سے متعلق حقائق کو سامنے لاناہے یہ انکوائری کمیشن ہے کورٹ آف لاء نہیں ،نتائج پر پہنچنے کیلئے سب کی مدد درکار ہے ،سانحہ کو اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ابھی تک جواب نہیں آیا۔پنجاب میں پولیس کے پاس فرانزک لیب ہے کیوں نہ وہاں کے ماہرین کو طلب کرکے ان کی مدد لی جائے ،خفیہ ایجنسیاں اگر آپکو رپورٹ نہیں دینا چاہتی تو ہم ان کو خود بلا لینگے ۔گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے بتایاکہ ہم نے درخواست دی ہے کہ قانونی اورذاتی دو طرح کے ایشوز کو جوڈیشل کمیشن دیکھیں ،جوڈیشل کمیشن کے جج نے کہاکہ اگر انہیں ان کی ذات پر کوئی اعتراض ہے تو وہ بتائیں قانونی طورپر وہ کچھ نہیں کرسکتا یہ انکوائری کمیشن ہے کورٹ آف لاء نہیں ،کمیشن کامقصد سچ کوسامنے لانے میں رکاوٹ کوہٹاناہے ،یہی کمیشن کا مینڈیٹ ہے ،ہمیں کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کیلئے 30دن کاوقت ملاہے اس دوران سب کی مدد کی ضرورت ہے ،عوام ،وکلاء اورحکومت میں سے جوبھی معاون ومدد گار ثابت ہوسکتاہے اس کی مدد لی جائیگی تاکہ پوشیدہ چیزوں کو سامنے لایاجاسکے ،انہوں نے استفسار کیاکہ صوبائی حکومت کو سانحہ سے متعلق سوال نامہ بھجوایاگیاتھا اس کاکیا ہوا ؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیاکہ انہوں نے جوابات دے دئیے ہیں کچھ پر کام جاری ہے،انہوں نے بتایاکہ 8بج کر 45منٹ پر کوئٹہ کے منو جان روڈ پر بلوچستان بار ایسو سی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کیاگیا بعد ازاں ملزمان فرارہوگئے ،اس سلسلے میں ایف سی سے جواب طلب کیاگیاہے جو ابھی تک نہیں ملا اس پر کمیشن کے جج نے کہاکہ سانحہ کو اتنے دن گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک جواب نہیں آیا تفتیشی آفیسر کو یہ پتہ ہی نہیں کہ وہاں ایف سی یونٹ تھی یا نہیں بتایاکہ چیف سیکرٹری بلوچستان اور آئی جی ایف سی کہاں ہے ؟ایف سی کے لاء آفیسر نے پیش ہوکر کہاکہ وہ ایف سی کاجواب لا کر آفس میں جمع کرواچکے ہیں ،اس پر کمیشن کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ایف سی نے جواب داخل کرادیاہے مگر 5گھنٹے میں اس سے جمع نہیں کرایاجاسکتا،ایف سی کے لاء آفیسر نے بتایاکہ مبارک چوک پر ایف سی کا ناکہ تھا جو سانحہ کے مقام سے 200میٹر دور ہے لیکن اہلکار ٹریفک کے شور کے باعث گولیاں چلنے کی آواز نہیں سن پائے ان کے جمع کرائے گئے رپورٹ کے متن میں کہاگیاتھاکہ جب اہلکار وہاں پہنچے تو ڈیڈباڈی کو ہسپتال منتقل کیاجاچکاتھا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف سی کے لاء آفیسر سے استفسارکیاکہ ایف سی کی مذکورہ چیک پوسٹ پر تعینات اہلکاروں کے نام بتائے جائیں ایسا لگتاہے جیسا رپورٹ آفس میں بیٹھ کربنائی گئی ہو ،ہمارے ساتھ گیم نہ کھیلاجائے ،یہ آپ کی کارکردگی ہے جس پر کمیشن کو لاء آفیسر کی جانب سے بتایاگیاکہ وہ حال ہی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں جس پر کمیشن کے جج نے کہاکہ اگر وہ نہیں جانتے تھے تو کسی سینئر آفیسر کو بھیجوادیتے جو جواب دیتا ،یہ آپ کیلئے وارنگ ہے ورنہ تمہیں اپنے آئی جی کو بلواناہوگا،پہلے غزہ بند اب آپریشن برانچ کی بات کی جاتی ہے ،یہ انکوائری کمیشن ہے سماعت نہیں کہ تاریخ دی جائے ہم مکمل تعاون چاہتے ہیں ،کم از کم ہمارے ساتھ مکمل تعاون تو کرے قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ عدالت میں ایسا کوئی موجود ہیں جس نے موقع کادورہ کیاہو،ہم ایف سی کے جواب سے مطمئن نہیں بلکہ اس سے غیر تسلی بخش قراردیتے ہیں ،انہوں نے ریمارکس دئیے کہ لوگوں کو بھی عدالت میں بلایاجائے اس موقع پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن اعتزاز گورایا نے بتایاکہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے مقتول صدر بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کو 8گولیاں لگی تھی اورموقع سے بھی پولیس کو 8خول ہی ملے ہیں جس پر کمیشن کے جج نے کہاکہ پولیس رپورٹ میں 7گولیوں کاذکر ہے ایک گولی کہاں ہے ،جس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایاکہ پولیس سرجن کو لکھاہے کہ ہمارا نقشہ جوابی کے مطابق میت کے بائیں جانب کی گولی کانہیں بتایاگیااس پر کمیشن کے جج قاضی فائز عیسٰی نے پوچھا کہ پولیس سرجن محمدنور بلوچ کہاں ہے ؟ پولیس نے سرجن کابیان ریکارڈ ہی نہیں کیا آپ کی بنیادی تفتیش ہی مکمل نہیں انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ دو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی انہیں پتہ نہیں کہ بار ایسوسی ایشن کے مقتول صدر کو کتنی گولیاں لگی ہیں اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ انہیں کچھ وقت درکارہے ،یہ روٹین کاکام ہے تین ماہ بعد توپولیس سرجن بھی بھول سکتاہے ،ہم خامیوں کو درست کرلیتے ہیں ،ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایاکہ 9ایم ایم پستول کے فرانزک رپورٹ کو اسلام آباد بھجوائے جاچکے ہیں ،فرانزک رپورٹ کے مطابق پولیس سب انسپکٹر مشتاق اوربلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ میں ایک ہی پستول استعمال کیاگیاکہ ہمیں کچھ مثبت چیزیں بھی ملی ہیں جس پر کمیشن کے جج نے ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ سب انسپکٹر مشتاق کے کیس کی مزیدتفتیش کرے ،یہ اتفاق سے ہوا یا آپ نے کوئی ڈیٹا مرتب کیاہے اس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایاکہ سب انسپکٹر کے قتل میں استعمال ہونیوالے گولیوں کے خول اور بلال انور کاسی کے قتل میں استعمال ہونیوالے گولیوں کے خول سے متعلق لیبارٹری میں بتایاگیاکہ وہ دونوں یکساں ہے ،اعتزاز گورایانے بتایاکہ سب انسپکٹر مشتاق کے قتل کی ذمہ داری لشکری جھنگوی العالمی جبکہ بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کے قتل کی ذمہ داری جماعت الااحرار اورداعش نے قبول کی ہے ،انہوں نے بتایاکہ سول ہسپتال کے چوکی انچارج نے 9بجکر 10منٹ پر کنٹرول کو اطلاع دی کہ ایک وکیل کی لاش کو ہسپتال منتقل کردیاگیاہے جس پر جج نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ ساری باتیں ہمیں تحریری طورپر دیدیں تاکہ اسے ریکارڈ کاحصہ بنایاجاسکے انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کیخلاف چلانے کی بجائے کام کرے اورہمیں اس کے متعلق بتایاجائے ،ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایاکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جانب سے جائے وقوعہ کے معائنہ کے بعد بتایاگیاہے کہ حملہ خودکش تھا ہمارے پاس اسپیشل برانچ میں بم ڈسپوزل یونٹ ہے ،جوڈیشل کمیشن کے جج نے کہاکہ یہ گھسی پٹی باتیں ہیں اس سے آگے چلیں ،جبکہ آئی جی پولیس نے بتایاکہ جس نے یہ رپورٹ دی ہے وہ صوبے میں کئی بم ڈی فیوز کر چکا ہے اوروہ باضابطہ کوالیفائڈ ہے، انہوں نے بتایاکہ انہیں تیکنیکی بنیادوں پر جو شواہد ملے ہیں ان کے مشاہدے کے بعد رپورٹ دی گئی ہے کمیشن کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ کس بنیاد پر حملے کو خودکش قراردیاگیاہے تو آئی جی پولیس نے بتایاکہ جائے وقوعہ سے خودکش بمبار کے بال اور مختلف اعضاء قبضے میں لئے گئے ہیں کمیشن کے جج نے استفسار کیاکہ کیا جائے وقوعہ سے خودکش جیکٹ کاکوئی ٹکڑا ملاہے بریف کیس میں دھماکہ خیز مواد ہو تو اس سے کوئی اثر پڑ سکتاہے ،اس پر آئی جی پولیس نے بتایاکہ دھماکہ خیز مواد بریف کیس میں ہو تو زمین میں گھڑا بنے گا،کمیشن نے پولیس کی تفتیش کے بعض نکات پرعدم اطمینان کااظہار کیا اوراستفسار کیاکہ جس اہلکار نے رپورٹ مرتب کی ہے وہ کہاں ہے ؟ جس پر آئی جی پولیس نے بتایاکہ مذکورہ اہلکار موجود نہیں اسے بلایاجاسکتاہے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہاکہ خودکش حملہ آور کی ٹانگیں اورایک ہاتھ فرانزک لیبارٹری بھجوایاجاچکاہے اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ کیا فرانزک لیباٹری کی ٹیم نے موقع کادورہ کیاہے جس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی جانب سے بتایاگیاکہ ایف آئی اے کی فرانزک ٹیم نے سول ہسپتال میں موقع کادورہ کیاجبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ پنجاب پولیس کے پاس فرانزک لیب موجود ہیں کیاان سے کسی قسم کاتعاون طلب کیاگیاہے ۔ فرانزک سائنس ایکسپرٹس کو کیوں نہ یہاں بلایا جائے جو آپکی معاونت کر سکے اس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہا کہ سول ہسپتال میں نیکٹا سے معاونت مانگی ہے، اسکا جواب نہیں آیا ،جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میرے سوال نامے کے بعد آپ نے نیکٹا کو خط لکھا خفیہ ایجنسیاں اگر آپکو رپورٹ نہیں دینا چاہتی تو ہم ان کو خود بلا لینگے سینئر وکلا کا کہنا تھا کہ کچھ ریکارڈ کو ٹیمپرڈ کیا جا رہا ہے یہ سب غلط بیانی کر رہے ہیں کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دئیے کہ کمیشن میں ایسا بندہ پیش ہو جو تمام سوالات کے جوابات دے سکے ،سچائی کی طرف سب کو جانا ہے ،کمیشن کے سربراہ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کی سماعت آج صبح ساڑھے 11بجے دوبارہ کرے گا۔واضح رہے کہ کمیشن کی جانب سے گزشتہ روز 36سوالات پوچھے گئے جن میں سے حکومت اورتحقیقاتی اداروں کی جانب سے 18سوالات کے جوابات دئیے گئے ہیں۔