|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2016

کراچی: کراچی سول ہسپتال کاشمار پاکستان کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے‘ روزانہ 12 ہزار کے قریب مریض چیک اپ کیلئے آتے ہیں‘800ڈاکٹرز اور سینکڑوں عملہ مختلف شعبہ جات میں فرائض سرانجام دیتے ہیں‘ سول ہسپتال کراچی میں غریب افراد اس غرض وامید سے آتے ہیں کہ انہیں مفت علاج فراہم ہوگا اور بہترین سہولیات بھی دی جائے گی مگر ہسپتال کے اندر موجود ملازم وغیرملازم افراد کراچی کے شہریوں سمیت اندرون سندھ اور بلوچستان سے آنے والے افراد سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں‘ سول ہسپتال میں ٹوٹل پانچ کاؤنٹر اوپی ڈیزکی پرچی کیلئے بنائے گئے ہیں جن میں دو خواتین،ایک بزرگ ومعذور افراد ،ایک اسٹاف کیلئے جبکہ ایک جنرل شامل ہے۔ 12ہزار افراد کیلئے پانچ کاؤنٹر بنانا انتہائی زیادتی ہے خاص کر خواتین جن کیلئے دو کاؤنٹر بنائے گئے ہیں ایک زچگی اور ایک دیگر امراض کیلئے ہے۔ زچگی کاؤنٹر میں خواتین گھنٹوں قطارمیں کھڑے رہ کر بری حالت میں مبتلاہوجاتے ہیں ان کیلئے خاص دو کاؤنٹر بناناانتہائی ضروری ہے تاکہ جس کیفیت سے وہ دوچار ہوتے ہیں اُن سے وہ بچ سکیں مگر بے چارے غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر سمجھوتہ کرتے ہیں پھر انہی خواتین کو لوٹنے کیلئے پرچی مافیا افراد وہاں بروقت سروس دینے کیلئے تیار رہتے ہیں جو خواتین کی پرچی اپنے اثر ورسوخ سے حاصل کرنے کے بعد اُن کے مختلف ٹیسٹ جو مفت میں کیے جاتے ہیں اُن کی قیمت ہزاروں روپے میں وصول کرتے ہیں جن سے خواتین ناواقف ہوتے ہیں اس بات کی تصدیق سول ہسپتال کے ایک ذمہ دار ڈاکٹر نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر کیا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ یہاں جو مریض علاج کیلئے آتے ہیں اُن کے چیک اپ ٹیسٹ اور ادویات مفت میں دستیاب ہیں مگر تمام سیاسی جماعتوں کے کارندے اس کرپشن میں ملوث ہوکر ڈاکٹرز اور عملے کو مختلف طریقوں سے اپنے دباؤ میں لاتے ہیں اس لیے ان کے سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا‘ انہوں نے کہاکہ ہمارے یہاں خاص کر خواتین جو علا ج کیلئے آتی ہیں انہیں پرچی حاصل کرنے کیلئے گھنٹوں قطار میں کھڑارہنا پڑتا ہے مگر اضافی کاؤنٹر بنانے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جس کے باعث مریض کی حالت انتہائی بگڑجاتی ہے اس دوران جان کاخطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے ‘ ایکسرے،الٹراساؤنڈ،بلڈٹیسٹ کی پرچی ڈاکٹر برائے راست مریضوں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں مگر پرچی مافیا انہیں اپنے جھانسے میں پھانس کر تمام ٹیسٹ کرانے کے بعد ان سے تین سے چار ہزار روپے لیتے ہیں جس کاعلم مریض کے ہمراہ رشتہ دار کو بھی نہیں ہوتا اگر کوئی مریض یا ان کے رشتہ داروں کو بتانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے اس لیے ڈاکٹر زعملہ خوف کی وجہ سے خاموش ہوجاتے ہیں۔ اس عمل کو آگے بڑھانے میں سول ہسپتال کے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جن کی ڈیوٹیاں مختلف شعبہ جات میں ہوتی ہیں مگر وہ ڈیوٹی نہیں دیتے بلکہ غریب عوام سے پیسے بٹورنے میں مصروف عمل رہتے ہیں‘ پرائیوٹ ہسپتالوں میں جن ٹیسٹ کی قیمتیں پانچ سے دس ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہیں تو بے چارے غریب عوام دو سے تین ہزار روپے میں اپنا کام کراتے ہیں اور جو میڈیسن سول ہسپتال کے سرکاری اسٹور میں دستیاب ہیں انہیں مریض کو نہیں دیاجاتا بلکہ مہنگے میڈیسن کو دیگر میڈیکل اسٹورز میں فروخت کیاجاتا ہے جن میں بیشتر انہی ملازمین کے میڈیکل اسٹور شامل ہیں مریضوں کو سستے میڈیسن دیکر باقی ماندہ میڈیسن کی پرچی تھما کر باہر میڈیکل اسٹور جانے کا مشورہ دیتے ہیں جو انتہائی شرمناک عمل ہے۔ ڈاکٹر نے کہاکہ اس میں کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے کارندے شامل ہیں جن میں بعض سول ہسپتال کے ملازمین ہیں جو سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہاکہ ہمارے یہاں اندرون سندھ اوربلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد علاج کیلئے زیادہ آتے ہیں کیونکہ وہاں بہترین علاج نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ی کے تحت کراچی سول ہسپتال کا رخ کرتے ہیں جن میں بعض مریض اور اُن کے رشتہ دار سول ہسپتال کے احاطے میں رات گزارتے ہیں کیونکہ وہ کرایہ کا مکان یا ہوٹل میں رہائش کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے مگر ان کی سہولیات کیلئے بھی کوئی نظام نہیں ہے جن میں خواتین بچے بزرگ شامل ہیں ۔ ایک المیہ یہ ہے کہ سرکاری ڈاکٹروں کیلئے پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں کہ ڈاکٹرزوعملہ جن شعبہ جات میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں انہیں پانی مہیا کیاجاسکے بلکہ اپنے پیسے سے پانی خریدتے ہیں صبح 9 بجے سے لیکر دوپہر 1بجے تک ڈیوٹی کے دوران بعض ڈاکٹر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنی بھڑاس مریضوں پر نکالتے ہیں اور اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ 12ہزار سے زائد مریضوں کیلئے وارڈز میں اضافہ بھی نہیں کیاجاتا تاکہ ڈاکٹرتسلی سے مریضوں کاچیک اپ کرسکے کبھی کبھار ڈاکٹرز بیزاری کی حالت میں جان چھڑاتے ہیں جس میں ڈاکٹروں کا کوئی قصور نہیں کیونکہ ڈاکٹروں اور وارڈز میں اضافہ کرکے اس معاملے کو حل کیاجاسکتا ہے۔ دوسری جانب کراچی سول ہسپتال میں پارکنگ بھی موجود نہیں جو لوگ سواری لیکر مریض کو لاتے ہیں اُن کی گاڑیوں کوٹریفک پولیس اٹھاکر لے جاتی ہے جس سے سول ہسپتال آنے والے افراد دو طرفہ پریشانی کا سامنا کرتے ہیں ایک طرف قطار میں جلدی پرچی بنانے تو دوسری جانب گاڑی اٹھانے والوں کا خوف اُن پر طاری ہوتا ہے‘ مگر اس مسئلے کو بھی حل کرنے کیلئے پارکنگ ایریاز جو عملے کیلئے بنایاگیاہے وہاں موجود سیکیورٹی گارڈز فی گاڑی 20 روپے وصول کرکے تسلی دیتے ہیں کہ گاڑی نہیں اٹھائی جائے گی جو ٹریفک پولیس اور سول ہسپتال کے گارڈز کی ملی بھگت ہے جو افراد پیسے دیتے ہیں ان کی گاڑی کو ہاتھ نہیں لگایاجاتا دیگر افراد کی گاڑیوں کو اٹھاکر لے جایا جاتا ہے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سول ہسپتال کے پچھلے اطراف میں کوئی سڑک نہیں کہ گاڑیوں کی پارکنگ سے ٹریفک میں خلل پڑے مگر مافیاز کے رحم وکرم پر تمام معاملہ چل رہا ہے جس کی جانب حکومت سندھ توجہ نہیں دے رہی جس کی فریاد ڈاکٹرزوعملہ خود کررہے ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کا اصلی رنگ یہی ہے کہ پیسے کماؤگھربناؤغریب عوام کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلتے جاؤ۔ بلاول بھٹوزرداری آج کل انکل صاحبان کو سیاست سکھارہے ہیں شاید فرصت ملنے کے بعد حکومت سندھ کی کارکردگی پر توجہ دینگے فی الحال اُن کی مصروفیات زیادہ ہیں کیونکہ اب انہوں نے بھی دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے جب تک غریب مریضوں سے مافیاز پیسے بٹورتے رہے۔