کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے کہاہے کہ پیشگی اطلاعات کے باوجود پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کیوں روکا نہیں جاسکا۔ اگر سانحہ 8اگست سول اسپتال کی صحیح سمت میں تحقیقات اور ذمہ داروں کو سزا دی جاتی تو آج پولیس پر حملے کا واقعہ رونما نہیں ہوتا ۔اے این پی سی پیک کے خلاف نہیں لیکن مغربی روٹ کے حوالے سے حکومت اور وزیراعظم کو اپنے وعدوں کو پورا کرناہوگا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے ایم پی اے ہاسٹل کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین ،صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی ،جنرل سیکرٹری حاجی نظام الدین کاکڑ،پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی اور دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ ۔اسفند یار ولی خان نے کہاکہ ہمیں جب پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کا پتہ چلا تو ہم نے کوئٹہ میں اپنے جلسے سمیت تمام پروگرامز منسوخ کئے ،ہم نے ان شہداء کے لواحقین کاغم اپنا غم سمجھا اور ایسی موقعوں پر ہماری روایات ہے جس کی ہم نے پاسداری کی ،ہم غم میں زندہ باد اورمردہ باد کے نعرے نہیں لگاتے ۔ہم نے کوئٹہ میں 26اکتوبر کاجلسہ صرف اورصرف پولیس پر حملے اور کیڈٹس شہداء کے غم میں ملتوی کیا حالانکہ ہمیں بہت سی دھمکیاں ملی تھیں مگر اس کے باوجود ہم نے جلسہ کرنے کا عزم کیاتھا جب اتنا بڑا واقعہ ہوا تو ہم نے سارے پروگرامز ملتوی کردیئے ۔ صرف میڈیا کے ذریعے قوم کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایسے مواقعوں پر متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتاہے تو حکومت اور دوسرے ذمہ دار یہ چیختے چلاتے ہیں کہ اس میں ہمسایہ ممالک ملوث ہیں مگر اب لوگ سمجھ چکے ہیں کہ ان چیخنے چلانے سے عوام مطمئن نہیں ہوگی کیاحکمرانوں نے کسی ایک بھی واقعہ کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرکے انہیں کوئی سزادی ؟یاصرف دعوؤں سے کام چلایاجارہاہے یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ کچھ کمزوریاں تھی جس کے باعث یہ واقعہ رونما ہوا اگر سانحہ 8اگست سول ہسپتال کوئٹہ کی صحیح معنوں میں تحقیقات ہوتی اور ذمہ داروں کو سزادی جاتی تو آج یہ واقعہ رونما نہیں ہوتا مگر افسوس ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومت کے دعوؤں پرجنہیں ابھی بھی کوئی ندامت ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ اس پر سیاست چمکارہے ہیں حالانکہ ایسے واقعات سیاست سے بالاترہوتے ہیں انہوں نے کہاکہ کل ٹی وی پر ایک بات چلی کہ کوئٹہ میں اے این پی کا سی پیک کیخلاف جلسہ تھا مگر ہم واضح کرناچاہتے ہیں کہ ہم سی پیک کیخلاف نہیں ہے تاہم حکومت اوروزیراعظم سے یہ ضرور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اے پی سی میں کئے گئے وعدوں اورمغربی روٹ پر کام شروع کرنے کے وعدوں کو پورا کرے ،سی پیک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے یہ واقعی ایک گیم چینجر ہے لیکن پشتونوں سمیت بلوچستان کے بلوچ لیڈر شپ میں بھی سی پیک کے حوالے سے ایک کنفیوژن ہے کہ اس میں گوادر اوروہاں کے عوام کا مستقبل کیاہوگا لہٰذا بلوچ لیڈر شپ کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیکر ان کے تحفظات دور کئے جائیں سی پیک کے انڈسٹریل زون کافیصلہ تو آپ کرچکے ہیں ہمیں بھی یہ بتایاجائے کہ اس سی پیک اورانڈسٹریل زون میں پشتونوں اور بلوچوں کا کتنا حصہ ہے ،اگر ہمارا حصہ نہیں ہے اورہمیں نظرانداز کیاگیاہے تو ہم اس پر تو ضرور اعتراض کرینگے اوراس کیخلاف آواز بھی بلندکرینگے ،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ضرب عضب آپریشن سے بھی امن قائم نہیں ہوا یہ ضرب عضب وہاں کامیاب ہوتاہے جب ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں ،نیشنل ایکشن پلان پر بھی بدقسمتی سے عملدرآمد نہیں ہورہا اگر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہوتا تو آج ہمارے معصوم لوگوں کا خون اس طرح نہیں بہایاجاتااے پی ایس پر حملہ اس کے بعد باچاخان یونیورسٹی کاواقعہ ،کوئٹہ میں 8اگست کا سانحہ اور مردان کچہری پر حملہ اور اس کے بعد پھر کوئٹہ میں پی ٹی سی پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک سازش کے تحت ہمارے تعلیم یافتہ طبقے یا وہ جو تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں انہیں ختم کرناچاہتے ہیں ،نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد وفاق اور صوبوں کاکام ہے اگر وہ صحیح معنوں اوربلاامتیاز اس پر عملدرآمد کرائینگے تو دہشت گردی کے یہ واقعات ختم ہونگے ،انہوں نے کہاکہ اس وقت جس ڈگر پر ملک کھڑی ہے یا جو حالات جارہے ہیں اس میں سب کو ایک ہونا چاہئے مگر افسوس کہ ہم ایسی کوئی چیز نہیں دیکھ رہے ،ہم ایک بار پھر واضح الفاظ میں سب کو بتادیتے ہیں کہ دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلئے بلاامتیاز کارروائی اور متحد ہونے کی ضرور ہے ،جب ان سے پوچھا گیا کہ 2013کے انتخابات میں آپ کو الیکشن مہم بھی چلانے نہیں دیاگیا اور اس کے بعد تواتر کے ساتھ آپ کے کارکنوں اور جلسوں پر حملے ہورہے ہیں آپ کو جلسے بھی نہیں کرنے دے رہے ان حالات میں آپ کے مستقبل کے فیصلے کیاہونگے تو اسفند یار ولی خان نے کہاکہ ہمارے بھی احساسات اورجذبات ہیں ہم ان تمام معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر حالات کو دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں ہم دشمن اور ان کے ٹھکانوں کو اگر صحیح طرح نہیں جانتے لیکن وہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں ایک خودکش حملہ آور سے ہم کس طرح لڑے ہمیں تو یہ پلان کرناہوگا کہ ان سے کیسے بچ سکتے ہیں اور ایک بات تو واضح ہے کہ جب تک ان انتہاپسندوں اور دہشتگردوں کو اندرون خانہ معاونت حاصل نہ ہو سوال نہیں پیدا ہوتا کہ ایسے واقعات رونما ہو ،یہاں پر پولیس ٹریننگ سینٹر میں کیڈٹس حملے کے حوالے سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ جب ان کیڈٹس کو چھٹی دیکر گھروں کو بھیجا گیاتھا پھر انہیں کس لئے واپس بلایاتھا اور کس لئے بلایاتھا صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں کو بھی اس کا جواب دینا ہوگا ،دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ چیخ چیخ کر ہمیں پیغامات بھیجتے ہیں کہ اے این پی 26اکتوبر کو کوئٹہ میں جلسہ نہ کریں اس میں دہشت گردی کا خطرہ ہے ،اور یہ بھی بتایاجاتاہے کہ پولیس اور اے این پی کاجلسہ دہشتگردوں کا ٹارگٹ ہے جب اتنی معلومات آپ کو ہے تو پھر بھی سیکورٹی کے انتظامات کیوں نہیں کئے گئے ،سینکڑوں پولیس کیڈٹس کو کیوں اس طرح بغیر سیکورٹی کے رکھاگیاتھا ،صوبائی حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو ان سوالوں کے جوابات دینے ہونگے۔