|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2016

پنجگور : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سی پیک کے منصوبے بلوچستان کی تباہی اور پنجاب کی آبادی کے لیے ہیں بلوچستان اور بلوچ قوم کی خدشات اور تحفظات دور کیئے بغیر اس منصوبے کو کھبی بھی قبول نہیں نہیں کریں گے سانحہ کوئٹہ حکومتی کی بدترین ناکامی ہے ہمارے ہاں ایک روایت چل پڑی ہے کہ جب میاں بیوی میں کوئی ناراضگی ہوتا ہے تو اسے بھی دوسروں کی سازش قرر دیا جاتا ہے اگر کوئٹہ واقعات میں کسی غیر ملکی ایجنسی را ملوث ہے تو اس کو بھی بے نقاب کرنا حکومت کی زمہ داری ہے اور حکومت کو چائیے ثبوت بین الاقوامی سطح پر پیش کرے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سی پیک کے 46ارب میں سے 45ارب روپے پنجاب پر خرچ ہورہے ہیں اور اگر کوئٹیہ واقعات واقعی سی پیک کو نا کام بنانے کے لیے ہیں تو پھر یہ حملے پنجاب میں کیوں نہیں ہورہے اتحاد واتفاق بی این پی کی پالیسی کا حصہ ہے لیکن جو قوم پرست شہد کی شوقین ہیں وہ ہر صورت میں اپنے ہونٹ گیلے کرنے کے عادی ہیں وہ کس طرح بلوچستان کے مسلے پر اتحاد واتفاق کو قبول کریں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجگور پہنچنے پر استقبالیہ سے خطاب اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس سے قبل ائیر پورٹ پہنچنے پر کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور گاڑی اور موٹر سائیکلوں کی جلوس کی شکل میں مرکزی رہنما میر نذیر احمد کی رہائش گاہ پر پہنچایا گیا اس دوران مرکزی نائب صدر ولی کاکڑ ختر حسین لانگو احمد نواز حاجی زاہد حسین واجہ جہانزیب بلوچ عبیداللہ بلوچ بھی موجود تھے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ آج کا دن جشن اور نعرے لگانے کا نہیں بلکہ ماتم کا دن ہے کیونکہ آٹھ اگست کے بدترین واقعہ کے بعد ایک بار پھر بلوچستان کی سرزمین پر پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ کرکے بلوچستان کو لہو لہاں کردیا گیا انہوں نے کہا کہ بی این پی کو بدتریں پابندی اور کارکنوں کی شہادتوں کے بعد جو چند لوگ بی این پی کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے مگر آج کے اس عوامی جم غفیر نے ایک بار پھر ان کی خوابوں کو چکنا چور بنادیا ہے انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبے کو جو بلوچستان کی ترقی کے بلند بانگ دعوے قرار جارہے ہیں لیکن جس سی پیک منصوبے کے 46ارب ڈالر میں سے 45ارب پنجاب پر خرچ ہورہے ہوں تو اسے ہم کس طرح بلوچستان کی ترقی قرار دیں کیونکہ اس منصوبے کی بنیاد بدنیتی پر مبنی ہو تو بلوچستان کے عوام اسے کیسے قبول کرسکتے ہیں سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سی پیک بلوچستان کی تباہی اور پنجاب کی آبادی کا منصوبہ ہے بلوچ قوم اور بلوچستان کے عوام کے خدشات اور تحفظات کو دور کئیے بغیر بلوچ قوم اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے انہوں نے کہا کہ اگر سی پیک بلوچستان کے لیے ہے تو اس کے اختیارات بلوچستان حکومت کیوں نہیں دیئے جارہے ہیں اگر پہلے والا وزیر اعلی سوتیلا تھا اب تو ان کا اپنا بندہ وزیر اعلی کے منصب پر فائز ہیں انھیں تو کم از کم اختیارات تو دے دیئے جاتے انہوں نے کہا کہ بلوچ ایک باشعور قوم ہے جو منصوبہ اس کی شناخت اور بقا کیلیے خطرہ ہو اسے قطعا قبول نہیں کریں گے انہوں نے کہا کہ پولیس سنٹر حملہ بدترین دہشت گردی اور سیکورٹی لپس ہے اس مسلے پر وقافی اور صوبائی حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہستپالوں میں کسی مریض کی تیمارداری کے لیے آنے والے کو گھسیٹ کر باہر پھینک دیا جاتا ہے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو غائب کرکے بعد میں ان کی لاششیں ویرانوں سے مل جاتی ہیں تو آٹھ اگست اور چوبیس اکتوبر اور ہزارہ براداری کی ٹارگٹ کلنگ اتنی سیکورٹی کے باوجود کیسے ممکن ہوسکتا ہے انہوں نے کہا کہ ایک غریب صوبے میں جہاں بچوں کے ہاتھوں کتاب پنسل ہسپتالوں میں دوائی اور لوگوں کو صاف پینے کا پانی میسر نہ ہو وہاں امن وامان کے مسلے پر تیس ارب روپے خرچ ہورہے ہیں اس کے باوجود کردگی صفر ہے اور یہ سارے پیسے بے مقصد سیکورٹی کے نام پر کیوں ضائع کیئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں بلوچستان میں کوئی ایسی قوم پرست جماعت نہیں جس سے اتحاد ممکن ہو کیونکہ جو جماعتیں ہیں وہ شہد کی زیادہ شوقین لگتے ہیں انہیں بلوچ قوم اور بلوچستان کی مفادات سے زیادہ شہد کی میٹھی چسکے سے محبت ہے انہوں نے کہا کہ الکٹرونکس میڈیا کا رویہ بلوچستان سے متعصبانہ ہے دوسرے صوبوں میں اگر گائے مر جائے تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے بلوچستان میں اجتماعی قبر لاشوں اغوا اور سیاسی سرگیوں کی کوریج پر بھی پابندی ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک میں کنٹرول ڈیموکریسی ہے اسی طرح میڈیا پر بھی قدغن ہے الیکٹرونکس میڈیا سے مزاکرات کا مقصد اسٹبلشمنٹؑ سے مزاکرات کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ جس میڈیا کوبلوچ نام سے نفرت ہو ہم اس کی تعریف کس طرح کریں انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک روایت چل پڑی ہے اگر میاں بیوی کا جھگڑا ہوجائے تو اسے دوسروں کے سر تھونپ دیا جاتا ہے اپنی کمزوریوں پرکوئی نظر نہیں دوڑا تا ہے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سانحہ آٹھ اگست اور اب پولیس ٹریننگ سنٹر حملے میں بلوچستان کا نقصان ہوا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے اسے کسی دوسرے ملک کے کھاتے میں ڈال کر بری الزمہ ہونے کی کوشش کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ بی این پی عوام بلوچستان کے ساحل اور وسائل کا سودا نہیں کرے گی جن لوگوں نے شہد کی مٹھاس سے ہونٹ گھیلے کرکے ساحل و وسائل کا سودا کیا ان کی ضمیر مر چکی ہے ہم ایسے لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہتے ۔دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج کے شہداء کو میت کو ویگنوں کی چھتوں پر رسیوں سے باندھ کر بھیجنے کا شرمناک عمل قابل افسوس ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے اور بلوچستان کے فرزندوں کی کیا حیثیت ہے حکمران 8اگست کے سانحہ اور اس واقعے کے بعد مستعفی ہو جاتے لیکن انہوں نے مستعفی ہونے کے بجائے اقتدار میں رہنے کو اہمیت دی اور حد تو یہ ہے کہ شہداء کے میتوں کو قدر و احترام کے ساتھ لواحقین تک پہنچایا جاتا لیکن شہداء کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی شہید ہونے والے فرزندوں کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھ کر بہتر انتظامات کئے جاتے اور محکمہ صحت کے پاس موجود سینکڑوں ویگن ایمبولینسوں میں ان میتوں کو بھجوا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں میتوں کو ویگنوں کی چھتوں پر بھیج کر لواحقین کو مزید کوفت سے دوچار کیا گیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اربوں روپے حکمران کرپشن ، اقرباء پروری اور شاہ خرچیوں کی نذر کر دیتے ہیں لیکن ایسے دلخراش واقعے میں ان کی ہٹ دھرمی اور عدم دلچسپی سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران عوامی خدمت تو درکنار انسانیت اور شہداء کی میتیوں کی بھی ان کے سامنے حیثیت نہیں رہی بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی ان لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں ہماری کوشش ہے کہ ہم ہر فورم پر اس دلخراش واقعے کے خلاف آواز بلند کریں اور کوشش رہے گی کہ مکمل تحقیقات کی جائیں کہ کون سے عوامل تھے کہ ٹریننگ مکمل کر کے جانے والے جوانوں کو دوبارہ بلایا گیا اس اہم سوال کی تحقیقات مکمل کر کے عوام کو آگاہی دی جائے اور ان سازشوں کا پردہ فاش کیا جائے کیونکہ اس عمل سے بلوچستان کے فرزندوں کی خدشات اور تحفظات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ان کے نوجوان فرزندوں کو بلا کر ٹریننگ سینٹرز میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا جس بے دردی کے ساتھ دہشتگردوں نے ان کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا تاریخ میں اس کی بہت کم مثال ملتی ہے آتش گیر بارود کا استعمال کر کے انسانیت کی تزلیل کی گئی سانحہ 8اگست میں بڑی تعداد میں وکلاء اور صحافی برادری شہید ہوئے اگر اس سانحہ کی مکمل تحقیقات کی جاتی اور ملزمان کو کیفر کردار سزا دی جاتی تو ایسے واقعات رونما نہ ہوتے حکمران صرف لفاظی حد تک بلوچستان میں امن و امان و مسائل حل ہونے کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملا بلوچستان کے عوام کو اس بھی لاشیں تحفے میں دی جارہی ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعتیں اپنے آپ کو اس واقعے سے بری الذمہ قرار دینے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں صوبائی حکومت میں شامل تمام جماعتیں اس میں برابر کی شریک ہیں فوری طور پر واقعات کے ذمہ داروں تک پہنچنے کیلئے تحقیقات کے عمل کو تیز کیا جائے اور عملی اقدامات کرتے ہوئے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے صرف کمیشن قائم کرنے اور لفاظی بیانات سے معاملات حل نہیں ہوتے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل بارہا ہماری کوشش رہی ہے کہ حکمرانوں کو احساس دلایا جائے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ان کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن حکمرانوں کی اولین ترجیحات ذاتی مفادات کا حصول ہے اب بلوچستان کے عوام جو باشعور اور سیاسی طور پر ذہنی طور پر پختہ ہو چکے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ حکمرانوں کے خود احتساب کریں ۔