کوئٹہ: صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ اور حکومت بلوچستان کے ترجمان انوالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج سانحے میں شہید ہونیوالے افراد کی میتیں عزت و احترام کے ساتھ ایمبولنسز ، ہیلی کاپٹرز اور سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے آبائی علاقوں کو بجھوائی گئیں۔ شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کو طے شدہ پالیسی کے مطابق معاوضہ اور سرکاری نوکریاں دی جائیں گی۔ زخمیوں کے علاج معالجہ کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ۔ سانحہ کی ہر پہلو پر تحقیقات کرکے غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شکست کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ دہشتگردوں کے خلاف اب جنگ نئے انداز سے لڑیں گے۔ یہ بات انہوں نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر صوبائی سیکرٹری صحت نور الحق بلوچ اورسول ہسپتال ٹراماسینٹر کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارباب جمیل بھی موجود تھے ۔ صوبائی وزیر صحت رحمت بلوچ اور انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پو لیس ٹریننگ کا لج پرحملے میں شہید ہو نے والے نو جوانوں کی نعشوں کو ویگنوں اور بسوں میں بھیجوانے سے متعلق خبریں اور تاثر درست نہیں۔بیشتر شہدا کی میتوں کو سی 130 طیارہ اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے آبائی علاقے پہنچایا گیا ۔ تاہم بعض شہدا کے لواحقین نے خود میتوں کو وین کے ذریعے لے جانے پر اصرار کیا کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد انہیں جلوس کی صورت میں ایک اعزاز کے ساتھ آبائی علاقوں میں لے جانا چاہتے تھے۔ ویگن کے کرایے کیلئے انہیں پینتیس پینتیس ہزار روپے کرایہ بھی دیا گیا۔ جن ویگنوں کی چھتوں پر تا بوت دکھے گئے ہیں وہ خا لی تھے ۔ میتیں ویگن کے اندر تھیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کو ٹرینگ کالج میں رکھنے کا مقصد دھرنے کے لئے بھیجنے کا تاثر درست نہیں ۔ مذکو رہ اہلکا روں کو پاک فوج سے تربیت دینے کیلئے روکنا مقصود تھا ۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ نے چند دن قبل ہی سمری کی منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کالج کی دیوار سے متعلق و زیر اعلی کے اعلان پر سرکاری طو ر پر ضابطہ کار کے تحت کام ہو رہا تھا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق وزیراعلیٰ کے اعلان پر عملدرآمد کیلئے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ ، محکمہ ترقی و منصوبہ بندی، محکمہ خزانہ سمیت چار مختلف محکمے کاغذی کارروائی مکمل کرتی ہے جس کے بعد ہی اس پر عملدرآمد ہوتا ہے اوراس میں دو ماہ سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے دیوار کی تعمیر کیا علان پر عملدرآمد سے قبل ہی سانحہ رو نما ہو گیا ۔پولیس ٹرننگ سینٹر پر سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کی تعداد تحقیقات کا اہم جز ہے اس سلسلے میں فی الحال کچھ نہیں بتا سکتے ۔اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جارہا ہے جس میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ دیگر سیکورٹی اداروں کے حکام بھی شامل ہوں گے۔ تحقیقات کے لیے تمام ذرائع استعمال کئے جا ئیں گے۔اس وقت تحقیقات کس نہج پر پہنچ چکی ہے سے متعلق کچھ نہیں بتا سکتے ۔رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے شہداء ہمارے قومی ہیروہیں ان کی تمام تر ذمہ داری ہم پر ہے سانحہ پولیس ٹریننگ کالج کے بعد تمام اداروں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے سول ہسپتال کے تمام عملے نے اپنی خدمات جس طرح انجام دیں اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہے ۔انہوں نے کہاکہ کچھ مفاد پرست عناصر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے شہداء کی میتیوں پر سیاسی دکانداری میں لگ گئے ہیں اور حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جبکہ میڈیا پر بھی شہداء کی میتوں سے متعلق غیر تصدیق شدہ معلومات نشر کی گئیں ۔انہوں نے کہاکہ زخمیوں کو فی کس 10ہزار روپے ادا کئے گئے ہیں جبکہ انہیں 3وقت کا کھانا بھی حکومت کی جانب سے دیا جارہاہے ۔ زخمیوں کیلئے تمام تر ادویات کاخرچہ حکومت اٹھائے گی ۔ چیف آف دی آرمی سٹاف جنر ل راحیل شریف کی جانب سے شہداء کے لئے 5لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا ہے جوکہ متعلقہ علاقوں کے ڈپٹی کمشنر زکو شہداء کی نماز جنازے کے بعد حوالے کردیئے گئے ہیں اور بیشتر ورثاء نے امداد ی رقوم کے چیک بھی وصول کر لئے ہیں اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار لحق کاکڑ نے کہاکہ سیکورٹی میں جتنی بھی خامیاں تھیں انہیں ملحوض خاطر رکھ کر اقدامات کئے جارہے ہیں۔پولیس ٹریننگ کالج کی دیوار نہ بننے کا پروپیگنڈہ کرنے والوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سرکاری کام کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں ہر منصوبہ مختلف مرحلوں سے ہوتا ہوا اپنے منطقی انجام پر پہنچتا ہے ، وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے پولیس ٹریننگ کالج سے متعلق تمام مطالبات پر من و عن عمل کرنے کی منظوری دی تھی لیکن منصوبے پورے ہونے سے پہلے ہی بد قسمتی سے سانحہ پولیس ٹریننگ کالج واقعہ ہوگیا ۔انہوں نے کہاکہ سپاہیوں کو روکنے سے متعلق بھی منفی پروپیگنڈہ جاری ہے محرم کی ڈیوٹیوں کے بعد سپاہیوں کو پولیس ٹریننگ کالج میں اس لئے روکا گیا تھا تاکہ انہیں پاک فوج سے انسداد دہشتگردی کی ٹریننگ دی جا سکے ۔ ہمارے دور حکومت میں دہشتگردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے لیکن دو بڑے سانحات کے باعث عوام ذہنی طورپر کوفت میں مبتلا ہے اور ان کے دکھ اور غم سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کے خلاف اعلانیہ اور غیر اعلاینہ کوورٹ جنگ شروع کر دی گئی ہے جس میں ر ا، این ڈی ایس بھارت اور افغانستان کھلم کھلا ملوث ہیں لیکن کچھ لوگ تنقید برائے تنقید میں لگے ہوئے ہیں ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ تنقید برائے اصلاح ضرور کریں۔ اور اس جنگ میں ہمارا بازو بنیں کیونکہ اب ہم جو جنگ لڑنے جا رہے ہیں یہ فیصلہ کن ہوگی ہم لڑ کر مرنے کو ترجیح دینگے ۔بد قسمتی ہے کہ ہمارے سپاہی بغیر لڑے شہید ہوئے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دہشتگردوں کو ختم کیا جائے گا۔ اور اب ہمارا کوئی جوان نہیں مرے گا اب مرینگے تو صرف وہ مرینگے جو مرنے کیلئے آئے ہونگے ۔انہوں نے کہاکہ ایپکس کمیٹی میں سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ کھل کر فیصلہ کیا ہے کہ اب نئے انداز میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی جائیگی ۔