|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2016

کوئٹہ: جماعت اسلامی کے امیرسینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ ملک دشمن قوتیں ملکر پاکستان کو نقصان پہنچارہی ہیں، وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کوئٹہ میں زیادہ دیر تک قیام کرکے سیکورٹی سے متعلق روڈ میپ بنانا چاہیے تھا۔سیاسی قیادت اور قبائلی سربراہوں کی مشاورت سے لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ کے دورے کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ ان کے ہمراہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولاناعبدالحق ہاشمی ،ضلعیامیر مولاناعبدالکبیر شاکر اور دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ سراج الحق نے سول اسپتال کا دورہ کرکے پولیس ٹریننگ کالج حملے میں زخمی ہونیوالے افراد کی عیادت کی اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق کاکہناتھاکہ پولیس ٹریننگ کالج پرحملہ عظیم سانحہ ہے ،یہ پورے ملک پر حملے کے مترادف ہے ۔کوئٹہ میں ہونیوالے حملے کیلئے بڑے چیلنج سے کم نہیں ۔دشمن سے گلہ کرنا نادانی ہوگی ۔ہمیں حکومت اور اداروں کی ناکامی اورمس مینجمنٹ کا افسوس ہے حکومت بلوچستان اتنی گہری نیند سوئی ہوئی ہے کہ اس کے خراٹے دوسرے صوبوں میں بھی سنے جارہے ہیں ۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ سانحہ کوئٹہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کی کڑی ہے ، دشمن قوتیں پاکستان میں عراق اورشام جیسے حالات پیدا کرکے شہروں کو کھنڈرات جبکہ بستیوں کو قبرستانوں میں بدلنا چاہتے ہیں ۔ان قوتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی قوتوں کا اکھاڑہ بنایاجائے ۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ کورس مکمل کرنیوالے پولیس اہلکاروں کو کیوں دوبارہ بلایاگیا ۔شہداء کے جنازے ویگنوں کی چھتوں پر کیوں روانہ کی گئیں۔ انہیں عزت و احترام سے کیوں نہیں بجھوایا گیا۔ یہ سوالات ہر کسی کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں ۔ حکومت کو ان کے جوابات دینا ہوں گے۔ کیا حکومت بلوچستان کے پاس اتنے بھی وسائل موجود نہیں تھے کہ جس کے ذریعے ان شہداء کی لاشوں کو باعزت طریقے سے آبائی علاقوں کو پہنچایاجاتا جنہوں نے ملک وقوم کی خاطر زندگیاں قربان کرنے کا حلف لے رکھاتھا ۔صوبائی حکومت کاطرز عمل لاپر واہی ،سنگدلی اور غیرسنجیدگی کی انتہاء ہے یہاں لاشوں کے ساتھ بھی دولت اورغربت کی بنیاد پر برتاؤ کیاجارہاہے پولیس والے غریب تھے اس لئے ان کی لاشیں ویگنوں اور بسوں کی چھتوں میں بھجوائی گئی انہوں نے کہاکہ جن زخمیوں کی عیادت کیلئے وہ گئے انہوں نے علاج ومعالجے کیلئے انہیں باہر بھجوانے کاکہا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زخمی پولیس سپاہیوں کو بہترین علاج ومعالجے کی سہولیات کیلئے اندرون صوبہ بھیجنے کیلئے انتظامات کرے انہوں نے کہاکہ بلوچستان حکومت سیکورٹی پر30ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کررہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی امن وامان کانفاذ ممکن نہیں ہوسکاہے امن وامان کا نفاذ نہ ہونا ظاہر کرتاہے کہ سیکورٹی نظام میں دراڑیں موجود ہیں ۔دہشت گرد جس وقت اور جہاں چاہئے کارروائی کرسکتے ہیں ۔وفاقی وزیر اطلاعات خود کہہ چکے ہیں کہ لاشیں اٹھاتے ہوئے سب تھک چکے ہیں پولیس کی اتنی بڑی نفری کو کس مقصد کیلئے پولیس ٹریننگ سینٹر میں بغیر اسلحہ کے رکھاگیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس ٹریننگ سینٹر کی دیوار کی تعمیر کا کام 1995سے جاری ہے اب بھی ایسا لگ رہاہے جیسا حکومت ایک اور سانحہ کا انتظار کررہی ہو سانحہ کے بعد سیکورٹی فورسز کی جانب سے عام عوام کو تنگ کئے جانے کاسلسلہ شروع کیاجاتاہے جس سے بند ہوناچاہئے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی یہاں کے جیسے حالات کاسامنا کرناپڑا ہے مگر انہوں نے موثر منصوبہ بندی کے ذریعے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنا کر دم لیا ۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے افراد کو اپنی حفاظت کی بجائے عوام کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ،حکومت اور قیادت کا کام ہی عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے پہرا کرناہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سول ہسپتال اور پولیس سینٹر پر ہونیوالے حملوں میں مماثلت پائی جارہی ہے اے پی ایس پرحملے کے بعدجس انداز سے وزیراعظم اور آرمی چیف کی موجودگی میں سیاسی قیادت کو اکھٹا کرکے رائے دی گئی اور پھر حکمت عملی بنائی گئی عین اسی طرح بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال سے متعلق سیاسی قیادت اور قبائلی مشران کو بلا کر ان کی تجاویز کے مطابق صوبے میں امن کی نفاذ کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے ،بیوروکریسی کے فیصلے کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا کرتے ،ہمیں اپنے فیصلوں میں عوام کو شامل کرناہوگا ۔ان کاکہناتھا کہ یہاں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اب تو ان کے پاس شہداء کے لواحقین کو صبر کی تلقین کرنے کیلئے الفاظ ہی نہیں ہے ۔ان کاکہناتھاکہ اسلام آباد کے متعلق بات اسلام آباد میں ہی کروں گا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام آباد کے لوگ یہاں آئے اورزخم خوردہ اہلیان کوئٹہ کے زخموں پر مرہم رکھے ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اورآرمی چیف پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کے بعد کوئٹہ آئے تو ہمیں امید تھی کہ وہ اس وقت تک وہاں موجود رہینگے جب تک وہ بلوچستان میں امن وامان سے متعلق کوئی روڈ میپ فائنل نہیں کیاجاتا ۔ان کاکہناتھاکہ میری نظر میں تمام تر صورتحال کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے اگر ادارے حکومت کی بات نہیں مانتی تو اس سلسلے میں عوام کو بتایاجائے ملک کی تمام ادارے حکومت کے ماتحت ہے ۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کے حوالے سے انہوں نے ایک تحریک سینیٹ میں جمع کرادی ہے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس سلسلے میں آواز اٹھائی جائیگی حکومت کے ساتھ اختلافات کے باوجود بھی ہم بلوچستان کے حوالے سے بلائے جانیوالے کسی بھی اجلاس میں شرکت کرینگے ۔ان کا کہنا تھا کہ 30اکتوبر کو لاہور میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام مارچ کاانعقاد کیاجائیگا جس میں بلوچستان کی مظلوم عوام کے حق میں بھی آواز اٹھائی جائے گی۔