|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2016

کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے وڈھ اور چاکر خان یونیورسٹی کے قیام میں روڑے اٹکانا قابل افسوس ہے ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے تمام لوازمات پورے ہونے کے بعد بھی شاؤنزم کی بنیاد پر ان دونوں یونیورسٹی کے قیام کو صرف اس بنیاد پر روک جا رہا ہے کہ کیونکہ یہ بلوچوں علاقوں میں تعمیر کئے جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فوری طور پر بلوچستان بھر میں جامعات بنائے جاتے انہوں نے کہا کہ حکمران جو 2013ء میں جعلی طریقے سے اقتدار پر براجمان ہوئے انہوں نے بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے بجائے سیاسی مداخلت کر کے تعلیمی امور چلا رہے ہیں بلوچستان جیسے ہر دور میں حکمرانوں نے پسماندہ رکھا موجودہ دور میں بلوچستان کو ہر میدان میں پیچھے رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں یو ایس ایڈ کے پروگرامز جو بلوچ علاقوں کیلئے تھے انہیں بھی رکوا دیا گیا 600سے زائد لیکچرراز کی پوسٹوں کی منسوخی بھی باعث افسوس ہے 400 سے زائد جونیئر کو سینئر پر فوقیت دینا اور مختلف جامعات میں میرٹ کے برعکس کرنا باعث افسوس ہے دونوں یونیورسٹی کے قیام میں روڑے اٹکانے کی کوششوں سے ثابت ہوتا ہے تنگ نظری کی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے بی این پی کی کوشش رہی ہے کہ اقوام کو آپس میں شیروشکر کیا جائے تاکہ بلوچستان میں نفرت اور تعصب کی بنیاد پر سیاست کی بیخ کنی کی جائے لیکن اب انتہاء ہو چکی ہے کہ تعلیم جیسے میں بھی سیاست مداخلت کی جا رہی ہے حکمران مسائل کو کم کرنے کی بجائے بڑھانے کا سبب بن رہی ہے حکمرانوں منفی روش ترک کریں اس کے برعکس بی این پی ہر فورم پر آواز بلند کرتی رہی ہے بی این پی نوجوان نسل کو علم کے ہتھیار سے لیس کرنے کیلئے کوشش کر رہی ہے اور یہ کوشش تب تک رہے گی جب تک بلوچستان کے تمام اضلاع میں تعلیمی اداروں کے مسائل نہیں ہوتے تہذیب یافتہ معاشروں کے حکمرانوں کا یہی مشن رہا ہے کہ وہ علم کے فروغ کیلئے اقدامات کریں بلوچستان کے مفلوک الحال عوام پہلے ہی سے انسانی بنیادی ضروریات بالخصوص تعلیم کے شعبے میں پسماندہ ہیں اور رہی سہی کسر موجودہ نام نہاد حکمران پورا کر رہے ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ایک طرف تعلیمی ایمر جنسی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے دوسری طرف ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس سے تعلیمی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کے علاقوں دیگر صوبوں میں جامعات کے معاملات چیف ایگزیکٹو چلا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں اب بھی 18ویں ترمیم پر عملدرآمد نہیں کی جا رہی ہے اتنے بڑے آئینی پوسٹ ہونے کے باوجود تنگ نظری کی پالیسی افسوس ناک ہے فوری طور پر وڈھ یونیورسٹی اور آغا خان یونیورسٹی کے قیام میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں تاکہ ان علاقوں سمیت آپس پاس کے غیور بلوچستانی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں اس کے برعکس پارٹی خاموش نہیں رہے گی اور حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ یو ایس ڈی ریڈنگ پروجیکٹس کے پروگرامز میں بلوچ علاقوں میں شامل کیا جائے اور اکیسویں صدی میں بلوچستان میں تعلیمی ترقی میں حائل رکاوٹیں ختم کرتے ہوئے اداروں میں سیاسی مداخلت کی جائے گی تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کا مطلب آنے والے نسلوں کو تعلیم سے دور رکھنا ہے تین سالہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود حکمران صرف بیانات کے حد تک محدود ہیں عملی طور پر بلوچ عوام کئی مسائل سے دوچار ہیں ۔