کراچی: لیاری کے علاقے سنگولائن عثمان بروہی روڈ پر دھماکہ سے 25 افرادزخمی ہوگئے جس میں تین کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے، زخمیوں کو سول ہسپتال بے نظیر بھٹو ٹراماسینٹر میں منتقل کیاگیا ہے جہاں ان کی طبی علاج جاری ہے،ٹراماسینٹر کے باہر زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین اور اہلِ محلہ کی بڑی تعداد موجود تھی، زخمیوں کے متعلق سول ہسپتال انتظامیہ نے میڈیا کو مکمل تفصیلات نہیں دی ہیں کہ دھماکے سے کتنے زخمی افراد کی حالت تشویشناک ہے جبکہ معمولی کتنے ہیں،لواحقین اور اہلِ محلہ میں شدید غصہ پایاجاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ سنگولائن عثمان بروہی روڈ میں یہ چوتھی بار دھماکہ ہورہا ہے مگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا ہے،لیاری کے نمائندگان صرف تسلی دے رہے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ یہاں پر ایک چوکی قائم کی جائے تاکہ بچوں خواتین بزرگوں سمیت عوام میں موجود خوف ختم ہوجائے مگر نمائندگان ہماری سنی کو اَن سنی کرتے ہیں اور ایسے واقعات رونما ہونے کے بعد آکر ہمارے غم میں شریک ہوکر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں، ٹراما سینٹر کے باہر موجودمنتخب نمائندگان کے سامنے لوگوں نے شدید غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے حالات کے ذمہ دارانہی کوٹہرایا اس دوران چیئرمین وائس چیئرمین کونسلران عوام کو تسلی دے رہے تھے مگر عوام شدید احتجاج کررہی تھی۔ عینی شاہدین کاکہنا ہے کہ جب نوجوان ویڈیوگیم کھیلنے میں مصروف تھے چہل پہل جاری تھی معمول کے مطابق اہل محلہ کے بزرگ گھروں کے باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز سنائی دی اور اندھیرا چھاگیا جس کے بعد خون سے لت پت افراد زمین پر گِرے پڑے تھے جس کے بعد زخمیوں کو ریسکیو ٹیم اور عوام کی مدد سے سول ہسپتال منتقل کیا گیا،زخمیوں کی تعداد 25 سے زائد بھی بتائی جارہی ہے مگر سول ہسپتال انتظامیہ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے ،سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھماکہ کیسے ہوا؟ کس طرح ہوا؟ کس نے کیا؟اس سوال کو نہ صرف عوام اٹھارہے ہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز بھی شش وپنج میں مبتلاہے کیونکہ دھماکہ کے بعد جگہ میں کوئی گڑھا پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی دیواروں پر کوئی نشان نظر آرہے تھے اور نہ ہی کسی موٹرسائیکل سوار کسی دیگر مشکوک افرادکو ہینڈگرنیڈ پھینکتے ہوئے دیکھاگیا ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فی الوقت بتانا مشکل ہے کہ دھماکہ کس طرح کیاگیا ہے مگر بم ڈسپوزل اسکواڈ ٹیم جائے وقوع کا معائنہ کررہی ہے کہ کتنا دھماکہ خیزمواد استعمال کیا گیا ہے اور کس طرح کی اشیاء اُس میں شامل تھی۔ دوسری جانب اہلِ محلہ نے مطالبہ کیا ہے کہ امن قائم کرنے کیلئے جلد چیک پوسٹ قائم کیاجائے تاکہ قیمتی جان ضیاع نہ ہوں۔ اب تک سیکیورٹی حکام کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں اسے کریکر دھماکہ کہاجارہا ہے مگر مکمل وثوق سے اس کی تصدیق بھی نہیں کی جارہی ہے۔لیاری میں معمول کے مطابق رینجرز کا گشت ،پیٹرولنگ اور آپریشن جاری ہیں مگر اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے بعد کچھ کمزوریاں نظرآرہی ہیں۔ لیاری میں خون کی ہولی کاسلسلہ ابھی تک تھما نہیں اور نہ ہی عوام پُرسکون زندگی گزاررہے ہیں جس کا دعویٰ کیاجارہا ہے،ایک طرف دھماکے ،فائرنگ سے عوام سخت پریشان ہیں تو دوسری جانب لیاری میں رات 2بجے کے بعد مسلح افراد گھروں میں داخل ہوکر ڈکیتی کررہے ہیں اب تک دس سے زائد کیسز ایسے سامنے آئے ہیں جو مختلف طریقوں سے گھروں میں داخل ہوکر اسلحہ کی زور پرلوٹ مار کرچکے ہیں جس کے تدارک کیلئے سیکیورٹی حکام کے ساتھ گمنام لیاری کے نمائندگان جو گلی سڑکوں کا دورہ کرکے میڈیا کو سرپر اٹھارہے ہیں انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا مگر عوامی حلقے لیاری کے ایم پیز سے سخت مایوس اور نالاں دکھائی دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی سے بھی لاتعلق ہوتے نظرآرہے ہیں جس کی واضح مثال بلاول بھٹو زرداری کی 16 دسمبر 2016ء کوصدر ٹاؤن پر آمد تھی کہ بلاؤل بھٹوکی لیاری میں دبنگ انٹری جو حقائق کے برعکس ہے بلاول بھٹو زرداری صدرٹاؤن لیمارکیٹ سے ہوتے ہوئے کارساز کی طرف چل پڑے اور اس کے قافلے میں لیاری کے عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی ۔شاید پیپلزپارٹی کراچی کے عہدیدار اس بات سے واقف تھے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری لیاری کی گلیوں میں جائینگے تو پیپلزپارٹی کے خلاف شدید عوامی ردعمل سامنے آئے گا جس کی مثال آج بھی سول ہسپتال کراچی کے باہر دھماکے سے متاثرہ افراد کے خاندان اور اہلِ محلہ اپنے غصہ سے کررہی تھی۔