|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2016

پچھلے ہفتے مجھے آفس کے ضروری کا م کی وجہ سے دوسرے شہر جا نا تھا گھر سے نکلتے وقت میرا تین سال کا بیٹا مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا میں اس کی سوالیہ نظریں دیکھ کر واپس پلٹا اور گو د میں جاکر اسے بہلانے کے انداز میں پوچھا بیٹا آپ کے لیئے کیا لاؤں ؟ایک منٹ کی خاموشی کے بعد اس نے لب ہلائے اور کان میں سرگوشی کے اندازمیں بولا کہ ابو میرے لیے ریمورٹ والی گاڑی لانا۔ میں نے اس کے گال پہ تپکی دی اور اپنے سفر پرروانہ ہو۔1 نومبر 2016 کی شام کو ایک بہت انہماک خبر ملی کہ گڈانی شب بریکنک یارڈ میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے بہت سے مزدور جھلس گئے اور کئی اس آگ کی لپٹ میں آکر زندہ جل گئے۔ دن بھر کے تھکا دینے والے کام کے بعد رات کو جوں ہی میں نرم بستر پر سونے گیا تو بیس اور پچیس اکتوبر کی درمیانی شب کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے حملے میں شہید ان اکسٹھ نوجوانوں اور مزدوروں کی خواہشات دماغ میں سوالوں کی طرح گردش کررہے تھے ان ہی سوالوں کے بیچ میں میر ے تین سالہ بیٹے کامعصوم چہرہ اور اسکی ایک پیاری سی خواہش زور سے آکر میرے دماغ سے ٹھکرائی اس خوف سے میں نے کچھ وقفے کے لیے آنکھیں بند کر دیں ،گڈانی اور کوئٹہ کے سانحے پر سوچنے لگا کہ ان سب کا کسی نہ کسی کا تین سال کا بیٹا ہو گا بلکہ ان کے ساتھ جڑے ماں ،بہن ،بیٹی،بچے سب اپنی اپنی جگہ مطمئن تھے ان کے بیٹوں ،بھایؤں ،خاوندوں کو نوکری مل گئی تھی اور عنقریب تنخواہ بھی ملنے والی تھی ایک گھر میں کئی خواہشات تشنہ ہوتی ہیں یہ تو اکسٹھ گھروں کی مشترکہ داستان ہے کسی نے ان کے ہا تھ پیلے کرنے تھے تو کسی کے ماں باپ منتظر تھے کہ بیٹے کی کمائی سے آخری عمر میں پہلی عمر کی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ۔کچھ گھروں میں بچوں کو باپ کی نوکری کے بعد نت نئے کھلونے اور گھومنے پھرنے کے خواب رات سوتے میں نظر آتے تھے کہیں اپنے منگیتر کی نوکری لگنے پر پر جوش آنکھوں میں سہانے خواب بسائے مشرقی روایات کی پروردہ بیٹیاں منتظر تھیں ۔ سریاب روڈ کوئٹہ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے اندر موجود نوجوان محض پولیس کیڈنس نہیں تھے جیتے جاگتے انسان تھے جنکی اپنی خواہشات ،امنگیں ،خواب ،نظریات تھے ۔رات سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے ہر ایک کے ذہن میں کوئی نہ کوئی منصوبہ تھا ۔پولیس سروس میں آکر اپنے شہر اپنے وطن کی خدمت کا جذبہ ،گھر والوں کی مالی معاونت ،اپنی ذاتی زندگی کے خوابوں کی تکمیل ۔ٹھیک ان ہی کی طرح گڈانی میں آگ میں جھلسنے والے مزدور وں کا کوئی خواب ہوگا کہ آج کی کمائی سے بچوں کے لیے کچھ خرید کر گھروں کو لوٹیں گے لیکن بچوں ،بھایؤں،بہنوں ،بیویوں کو کیا پتہ کہ انکی امید آج بُجھ چکی ہے آج انکے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں انہیں ایک وقت کی روٹی اب نصیب ہو کہ نہ ہو ۔اب ان معصوم چہروں کی فرمائش کون پوری کرے گا ۔نیند نے اپنا پورا زور پکڑ لیا تھا کہ بیٹے کی آواز کانوں میں گونجی اور دل میں ایک عجیب سا خوف ابھر کر سامنے آیا اور میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ان سب کو ریمورٹ والی گاڑی دلا دے