|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2016

زندگی کے بعض سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں نہ تو پاؤں تھکتے ہیں، نہ دل بیزار ہوتا ہے اور نہ ہی آنکھوں کو منزل دیکھنے کی جلدی ہوتی ہے۔ بلکہ دھیرے دھیرے سے منزل کی جانب بڑھتے ہوئے قدم اس راستے پر ہی چلتے رہنا چاہتے ہیں۔میرا سفر جس مقام کی جانب جاری تھا، وہاں ہر سال ہزاروں لوگ، عقیدت مند اور دنیا کے لوگ آتے ہیں جی ہاں یہ وطِن عزیز کو قدرت نے رعنائیوں سے بھرپور زمین عطا فرمائی ہے، یہاں فطرت کے تمام حسین رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔پاکستان میں کچھ پرْکشش مقامات ہیں جن کی مماثلت دنیا کا کوئی سیاحی مقام نہیں کر سکتاان میں ایک بولان پاس بھی کہلاتا ہے۔سیاحوں نے ایسی وادیوں،سحر انگیز جھیلوں اور پراسرار مقامات کی سیر تو کی ہے مگر ایسے دل کش علاقے بھی ہیں جو صرف فلموں میں نظر آتے ہیں اور جنھیں دیکھ کر خواب سا گمان ہوتا ہے۔ان علاقوں میں سے ایک سر سبز وشاداب اور دل فریب علاقہ پیرغائب بھی ہے جوبلوچستان کے ضلع بولان میں واقع ہے۔پیر غائب کا علاقہ بے آب و گیاہ پہاڑوں کے درمیان ایک سر سبز و شاداب وادی کی صورت میں موجود ہے۔اس حسین علاقے میں پہنچتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنت کی وادی میں آ گئے ہیں اور جہاں نظر پڑ تی ہے وہیں کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر جاتی ہے۔چاروں طرف خوبصورت بھورے جلے ہوئے پہاڑ اوران میں سے چھم چھم کرتا صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی، آبشار کی صورت بہتا ہے اور یہ حسین آبشار دو مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر گرتی ہوئی پرْلطف نظارہ پیش کرتی ہے۔آبشار کے دونوں حصوں کا پانی نشیب کی طرف بہتا ہوا ایک بہت بڑے تالاب میں مل جا تا ہے۔ پیر غائب ، کوئٹہ سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس علاقے کا نام ایک بزرگ پر رکھا گیا ، جوبرسوں سال پہلے اپنی بہن ’’بی بی نانی‘‘کے ہمراہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے غرض سے یہاں آئے تھے یہاں کے لوگ بت پرست تھے اس لیے وہ ان دونوں کے دشمن بن گئے اور یہاں تک کہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش کی، تو بی بی نانی اپنے بچاؤ کے لیے بولان کی گھاٹیوں میں چھپ گئی اور کافی دیر رہنے کے بعد انکی موت واقع ہو گئی۔بی بی نانی کا مزار بولان سے 15کلو میٹر کے فاصلے پر پل کے نیچے بنا ہوا ہے۔ جبکہ پیر غائب چٹا نوں کے درمیان چھپ گیا پھر تھوڑی دیر بعد وہ غائب ہو گیا ،اور انکاکچھ پتہ نہ چلا۔اسی وجہ سے یہ علاقہ پیر غائب کے نام سے مشہورہے۔یہ علاقہ اکثر بولان پاس کے نام سے جانا جاتا ہے اس جگہ اکثر ٹریفک جام ہو جاتا ہے تو کئی گھنٹوں تک لوگ اس جگہ بولان کے پانی سے نہاتے رہتے ہیں اور خوب ڈرائیور بھی انجوائے کرتے ہیں۔بی بی نانی کے ارد گرد کوئی بہترین ہوٹل موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کو کافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔پی۔ٹی۔ڈی۔سی (پاکستان ٹوریزم ڈیولپمینٹ کارپوریشن ) نے زیارت میں ایک ہوٹل قائم کیا ہے مگر وہ سیاحوں کو خاصہ دور پڑتا ہے ،اس لیے لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لاتے ہیں مگر کھا پی کر وہی کچرا پھینک دیتے ہیں جو اس جگہ کی خوبصورتی کو خراب کر رہا ہے۔ کچھ لوگ اس ٹھنڈے پانی میں نہا کر واپس شام کو یا تو کوئٹہ چلے جاتے ہے یا سبی کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سال 2015 تا 2014 میں بلو چستان پر 14 دہشت گرد حملے ہوئے جس کے باعث سیاحت پر برا اثر پڑا ہے اور بی بی نانی جیسی تسکین بخش تفریحی علاقے ویرانگی کی نظر ہو گئے ہیںِ۔حال ہی میں خصوصی طور پر وزیراعظم نواز شریف نے پی۔ٹی۔ڈی۔سی کے منیجنگ ڈائریکٹر چودھری کبیر احمد خان کو ہدایات دیں ہیں کہ بلوچستان میں سیاحت کو بہتر بنایا جائے۔اسکے لیے ہوٹل کے اخراجات کو کم کرنے ،گرمیوں کے تفریحی پیکیجوں کو متعارف کرانے اور سیاحوں کے جان و مال کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔پہاڑوں میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے بھی پیرغائب اور مین روڈ پہ واقعہ بی بی نانی زیارت کا علاقہ بالکل گم نام ہے اوراسی لیے یہاں تک ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی رسائی نہ ہو پائی ایک قدرتی تفریح مقام جہاں پر پہاڑوں سے نکلتا پانی علاقے کو سیراب کرتا ہوا جاتا ہے اور لوگوں کو اپنی جانب مبذول کرواتا ہے وہی جگہ عدم توجہ کی وجہ کئی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے شاہ عبدالطیف سائیں کے شاعری کی سورمیاں (ہیروئن) عورتیں ہی ہیں۔ سسی، مارئی، مومل، سوہنی، نوری، یہ سب وہ کردار ہیں جن کو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کرکے امر کر دیا ہے۔ انہوں نے مرد کے بجائے اپنے کلام کے اظہار کے لیے عورتوں کا انتخاب کیا ہے، تاکہ معاشرے کو اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ عورت جسے ہم کمتر سمجھتے ہیں وہ کسی بھی طرح کمتر نہیں، بلکہ ہمت، حوصلے، رومان اور مشکلات کا سامنا کرنے کی علامت ہے۔ مگر افسوس اس وقت مجھے ہوا جب بی بی نانی سے متعلق میں نے کوئی معلوماتی کتاب ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر نا کام ہو گیا۔ اللہ تعالی ہمارے لکھنے والے بھائیوں کو ہمت دے جن مقامات پہ کوئی کچھ نہیں لکھتا جو ہماری تاریخ سے جڑے ہیں ان پہ کم از کم کچھ لکھیں تاکہ آنے والی نسل ہمارے تاریخی مقامات کو کم از کم پہچان سکیں اور ان کے بارے میں کچھ معلومات دیں سکیں۔