کراچی: بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ طاہرہ نصیر کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے، طاہرہ نصیر کا کہنا ہے کہ ابتدائی علاج کیلئے ڈاکٹروں کے مطابق 12لاکھ روپے درکار ہیں، طاہرہ نصیر یقیناًایک غریب گھرانہ سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے انہوں نے میڈیا کی توسط سے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ اُن کے علاج معالجے کیلئے مدد کی جائے مگر تاحال طاہرہ نصیر کو حکومت کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے اور نہ ہی ان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ طاہرہ نصیر نے مخیرحضرات،این جی اوز، سیاسی،سماجی اور طلباء تنظیموں سے اپنے علاج کے حوالے سے بھی مددکی ہے۔اگر طاہرہ نصیر کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گی اور اس خطرناک مرض کی وجہ سے کم عمری میں شاید وہ سب کچھ اس نے اپنی زندگی کے متعلق مستقبل کے بارے میں خواب آنکھوں میں بسائے تھے وہ کفن دفن کے ساتھ ختم ہوجائینگے،پھر خاموشی پھر ایک موت، محکمہ صحت کی بھاری بھرکم بجٹ پر سوال کیونکر نہیں اٹھایاجاتا ،قوم پرستوں پر مشتمل اتحادی حکومت بلوچستان کے عوام کیلئے صحت کی بہتری کیلئے جو بجٹ پاس کیا ہے اس کے پیسے کہاں اور کس پر خرچ ہورہے ہیں اس پر لب کشائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی اس سنگین نوعیت کے معاملے پر خاموشی عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ بلوچستان میں رواں سال کے دوران 17 کینسر کے کیسز سامنے آئے جن میں 7 افراد علاج کے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے، 7 افراد میں خواتین،بچے اور نوجوان شامل ہیں،وثوق سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ 17 کیسز رواں سال کے ہی ہیں شاید اس سے قبل کے ہوں مگر پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبریں رواں سال سامنے آنا شروع ہوئے ہیں، طاہرہ نصیرسمیت وہ 17 افراد ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سب سے بڑا منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری شروع ہورہا ہے، اس منصوبے کی ہر خبر شہ سرخیوں میں نظرآتی ہے، گیم چینجر،تین ارب لوگوں کی زندگی کی تبدیلی، خطے میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز،مگر افسوس کہ میڈیا میں ان کیسز کے آنے کے بعد بھی وفاقی وصوبائی حکومت کی جانب سے داد رسی نہ کرنا بلوچستان کے عوام کے ساتھ بڑی زیادتی ہے اس کے برعکس پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں اگر اسی نوعیت کے کیسز سامنے آتے ہیں تو صوبائی حکومت سے قبل وفاقی حکومت علاج کے تمام اخراجات اپنے ذمے لیتی ہے اور اس کے ساتھ وہاں کے سرمایہ دار بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر بلوچستان میں رپورٹ ہونے والے کیسز پر کوئی بھی داد رسی کیلئے آگے نہیں بڑھتا، رواں سال کے دوران ہی ریحان رند جو خضدار کا طالب علم تھا جس کیلئے بھرپور کوششیں کی گئی حکام بالا تک تمام رپورٹ کی فائل بھجوائی گئی مگر کوئی مثبت جواب نہ ملنے کی وجہ سے 22 سالہ ریحان رند کراچی کے نجی ہسپتال میں کینسر کا مقابلہ کرتے ہوئے انتقال کرگیا۔بلوچستان کے عوام صحت سمیت دیگر سہولیات سے محروم ہیں جس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جاسکتی ہے، آج بھی حکمران اپنے دعوؤں پر قائم ہیں کہ کل اور آج کے بلوچستان میں فرق واضح ہے شاید یہی فرق ہے کہ کل تک لوگ گھروں میں رہ کر دم توڑرہے تھے اور آج سڑکوں پر آکر زندگی بھیک مانگ کرفریاد کرتے کرتے دم توڑ رہے ہیں۔ اگر واقعی بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبے وہاں کے عوام کیلئے ہے تو ایک ایمرجنسی سیل ہر ضلع پر قائم کیاجائے تاکہ ایسے خطرناک مرض میں مبتلا افراد کی رپورٹ فوری طلب کرکے ان کے علاج معالجے کے اخراجات پورے کیے جائیں تاکہ وہ اس طرح اپنی عزت نفس مجروع کرکے بھیک مانگ مانگ کر تڑپتے ہوئے بستر پر ایڑیاں رگڑ کر موت کی آغوش میں نہ جائیں۔ بلوچستان کے عوام کی بھی یہی خواہش ہے کہ ’’جیناسڈا حق ہے‘‘ لہٰذا انہیں ان کا ہی حق دیاجائے اس سے زیادہ شاید وہ توقع نہیں کرسکتے بس زندگی چاہتے ہیں جو ہر ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔