|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2016

20نومبر کو پوری دنیا میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور ہم بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہیں جو اپنے آپ کو ایک ترقی یافتہ قوم ظاہر کرنے کیلئے بھی اخبارات ،ٹی وی چینلز سمیت سوشل میڈیا پر بچوں کے عالمی دن کے موقع پر تجزیہ کرتے ہیں ،رپورٹس لکھتے ہیں ،بڑے بڑے سیمینارز منعقد کرکے بچوں کے ساتھ مل کر اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔این جی اوز میں کام کرنے والے بڑے بڑے بینرز بناکر دیواروں پر لگانے کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بیٹھ کر تقریریں کرنے کے بعد اپنے گھروں کا رُخ کرتے ہیں ۔قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں میں بھی بچوں کے حوالے سے بل پاس کئے جاتے ہیں لیکن فائلیں درازوں میں جا کر دب جاتے ہیں ۔قراردادیں پاس کر کے ایوانوں میں تالیاں بجائی جاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ غور نہیں کیا ہے کہ بچوں کا عالمی دن منانے کے ساتھ ہمیں عملی طور پر کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے کتنے بچے سکولوں سے دور ویرانوں میں معاشرتی برائیوں میں ملوث ہیں کتنے بچے اپنے والدین کی کمزورویوں کی وجہ سے گھریلو معاملات کی وجہ سے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہیں ۔بچوں کا عالمی دن تو دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور لمبی لمبی تقریروں کے علاوہ قرار دادیں بھی پاس ہو جاتی ہیں لیکن ہم نے ایک دن یہ زحمت نہیں کی کہ کسی سکول کا دورہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ سکول میں زیر تعلیم بچے کس حال میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس وقت ہمارے ملک میں بچوں کی ایک بڑی تعداد سکول سے باہر تعلیم کی زیور سے کیوں یکسر محروم ہیں اور بچوں کی تعلیم سے دوری کی وجہ ہمارا نظام تعلیم ہے یا سکول میں اساتذہ کرام کی ذ ہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے بچے سکول سے بھاگ کر اپنی تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور تو نہیں۔کیا ہم نے کبھی بھی کسی بچے کو اس کے سکول اور تعلیمی ماحول کے علاوہ اساتذہ کرام کے رویہ کے بارے میں پوچھا ہے ؟؟آج کل ہمارے سکولوں میں بچوں پر جسمانی تشدد کا سلسلہ ختم ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ یہ شدت اختیار کر چکا ہے ۔ سکولوں میں بچوں کو گھنٹوں دھوپ میں کھڑا ہونے کی سزا کے علاوہ ہڈیوں اور جسم کے مختلف حساس حصوں پر تشدد کرکے زخمی کیا جاتا ہے ۔ معمولی غلطی پر بچوں کو گھنٹوں ایک پاؤں پر کھڑا ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار سکولوں سے بچوں کو بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال پہنچاتے دیکھا گیا ہے ۔مدارس میں بچوں کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کی مثالیں تو کہیں بھی نہیں ملتیں ۔مدارس میں زیر تعلیم بچے اکثر معلم کے ظالمانہ رویہ کی وجہ سے مدارس سے بھاگنے کے بعد قرآن مجید کی تعلیم اور اسلامی تعلیمات کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کئی بار مدارس میں بچوں کو زنجیروں سے باندھتے ہوئے دیکھا گیا ہے لیکن ہم نے کبھی بھی اس عمل کو ختم کرکے مدارس اور سکولوں میں ایک بہتر نظام تعلیم لانے کی کوشش نہیں کی ہے ۔اگر ہمارے سکول اور مدارس میں بچوں کے حقوق اور اُن پر تشدد کے روک تھام کے حوالے سے کوئی اچھا نظام لاتے تو شاید آج ہم دینی اور دنیاوی تعلیم کے حوالے سے ایک بہتر مقام حاصل کر چکے ہوتے ۔ہمارے سکولوں میں پرائمری تک پچاس فیصد بچے اپنی پڑھائی یا تو غربت کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں یا اساتذہ کرام کے رویہ کی وجہ سے ۔ہمارے مدارس کے ساٹھ فیصد بچے اپنے معلم کے سخت رویہ کی وجہ سے مدارس سے بھاگ جاتے ہیں ۔اس وقت بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دینی اور دنیاوی طور پر اپنے بچوں کو ایک مثالی تعلیم دلا سکیں ۔ چائلڈ لیبر بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز بن گیا ہے اور چائلڈ لیبر کا رجحان اتنا شدت اختیار کر چکا ہے کہ ہمارے دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی اکثریت بچے ہیں اور بچوں کو کم اجرت پر ہم کام پر لگا کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ بچوں سے کام لینے کے بہت سے فائدے ہیں اول تو یہ کہ بچے کم اُجرت پر کام کرنے کے علاوہ کام نہایت ایمانداری سے کرتے ہیں ۔فیکٹری مالکان سے لے کر ورکشاپ مالکان بھی چائلڈ لیبر کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے ۔بچوں کو شروع دن سے ہم مسلسل نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں ۔گھر وں میں والدین کی عدم توجہی ڈانٹ ڈپٹ اور سخت رویے نے ہمارے بچوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کیا ہے ۔سکول اور مدارس میں بھی ہمارے رویہ میں کچھ فرق نہیں پڑا ہے ۔معاشرے میں گھریلو نا چاکی اور طلاق کی صورت میں اس کا منفی اثر بچوں پر ہی پڑتا ہے اور ماں باپ کے زندہ ہونے کے باوجود بھی بچے یتیم ہوتے ہیں ۔ ماں باپ کے درمیان ہونے والی ناچاکی کی سزا بچوں کو ملتا ہے ۔یوں ہم نے اپنے بچوں کو ایک مسلسل دباؤ میں رکھا ہے ۔ایک بچے کی اولین درسگاہ اُس کی ماں کی گود ہے ۔ماں کی گود سے لے کر سکول مدارس بازار سمیت دکانوں اور کارخانوں میں بھی ہم نے بچوں کو اسپر کے طور پررکھ کر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ہم بچوں کا عالمی دن منانے اور بڑی تقریریں کرنے اور بڑے بینرز دیواروں پر آویزاں کرنے کے بجائے بچوں کو پیار اور محبت سے اُن کی دیکھ بال کرکے اُن کو معاشرے کا ایک اہم ستون تصور کریں ۔سکول اور مدارس میں نظام تعلیم کو بہتر کرکے بچوں کو تشدد اور اساتذہ کرام اور معلم کے ظالمانہ رویہ سے نجات دلانے کے ساتھ ایک ایسا نظام تعلیم متعارف کرائیں جس سے ہماری شرح خواندگی میں اضافہ ہو سکے ۔ایک سخت رویہ کے بجائے بچوں کو پیار اور محبت سے پڑھانے کا نظام لانا ہماری ذمہ داری ہے ۔تب ہم اپنے بچوں کے ساتھ انصاف کرکے ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔دن منانے، تقریریں کرنے ،ڈیسک بجانے ،قرار دادیں پاس کرنے کے بجائے عملی طور پر ایک ایسا نظام لانا ہے جس سے ہمارے بچوں کے ساتھ ہونے والی مظالم کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو سکے ۔چائلڈ لیبر کو ختم کرنے ،اس پر عمل نہ کرنے والے کے خلاف کاروائی کی جائے اور یتیم بچوں کی تعلیم کیلئے سرکاری سطح پر انتظام کیا جائے ۔