کوئٹہ: محکمہ صحت کے افسران ہسپتالوں سے چوری شدہ ادویات میڈیکل سٹورز پر فروخت ہونے کے واقعات کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں حالیہ دنوں میں صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں سرکاری ہسپتالوں کی چوری شدہ ادویات بازار میں میڈیکل سٹورز سے برآمدکی گئیں ہیں ان ادویات پر سرکاری لیبل بھی درج تھا بعض حکام پریشان ہیں کہ ان کے خلاف کس قانون کے تحت مقدمہ درج کیاجائے جبکہ مبینہ طور پر سرکاری ادویات کی چوری میں ملوث عناصر ان کیسز کو رفع دفع کرنے میں لگے ہوئے ادویات کے چوروں نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ سرکاری اسٹورز اور ہسپتالوں سے ادویات چوری کرنے پر کسی قسم کی سزا نہیں ہونی چاہئے اس لئے سرکاری ڈرگ اسٹورز اور ہسپتالوں سے ادویات کی چوری عام بات ہے اور بلوچستان خصوصا کوئٹہ کے میڈیکل اسٹورز دیدہ دلیری سے سرکاری ہسپتالوں سے چوری شدہ ادویات لیبل کے ساتھ فروخت کر رہے ہیں حالیہ ایک چھاپے میں کوئٹہ کے ایک معروف میڈیکل اسٹورز سے بڑی تعداد میں چوری شدہ ادویات برآمد ہوئیں ابھی تک حکام پریشان ہیں کہ اس پرکس قسم کا مقدمہ قائم کیاجائے باقی معاملات میں ڈرگ ایکٹ موجود ہے مگر ڈرگ ایکٹ چوری کے ادویات کے معاملے میں خاموش ہے سرکاری افسران بھی اس بات پر تیا ر نہیں ہوتے کہ ان کے نام سے ملزمان کے خلاف مقدمہ قائم کیاجائے چونکہ کرمنل قوانین کے ذریعے ہی ان ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے کیونکہ ثبوت موجود ہیں سرکاری ادویات ان دکانوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ اس لئے امکانات کم ہیں کہ معاملہ یا کیس عدالت کو بھیجا جائے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون ایف آئی آر درج کرنے کا مجاز ہے کم سے کم محکمہ صحت کے متعلقہ افسران اس کیلئے تیار نظر نہیں آتے ۔واضح رہے کہ کوئٹہ کے میڈیکل اسٹورز سے حکومت سندھ کے ہسپتالوں کے ادویات برآمد ہوئیں تھیں اس سے قبل ایک اورمیڈیکل اسٹور سے وزیرستان اور کے پی صوبہ کے سرکاری ہسپتال کی ادویات بھی پکڑی گئیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو یقیناًبلوچستان کے ادویات ضرور دوسرے صوبوں یا دور دراز علاقوں میں فروخت ہو رہی ہونگی محکمہ صحت اور محکمہ قانون کو اس معاملے کا حل تلاش کرنا چاہئے تاکہ قانون سازی ہو اور چوروں کو یقینی طور پر سزائیں مل سکے ۔