علم ودانش،فکر وشعور اور نظریات سے عاری قبائلیت پر مشتمل رہی سہی نیم سیاسی ماحول میں پروان چڑھتے ہوئے بلوچ بحیثیت قوم وقت و حالات کی نزاکت اور سیاسی ضروریات کو سمجھتے ہوئے تمام تر سیاسی،قباہلی،گروئی و ذاتی اختلافات کے باوجود وسیع تر قومی مفاد میں متحد ہو کر قومی ایشوزپر قومی ہم آہنگی پیدا کر کے مشترکہ جدوجہد کی اہمیت پر زور دے کر اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ناگفتہ بہ حالات و قومی چیلنجزسے نمٹتے رہے ہیں.مثلاً بلوچستان میں بسنے والے تمام مظلوم و محروم طبقات کے حقوق کے لیے موئثرانداز میں آواز بلند کرنے کے لیے پونم کاقیام وجدوجہد،اسی طرح بلوچ اکثریتی جماعتوں کا چارجماعتی اتحاد کا قیام وخصوصاً منظم انداز میں جمہوری طریقے سے مشترکہ طور پر قومی حقوق کے لیے جدوجہد ودیگر وقت وحالات کے عین مطابق اتحادیں قومی یکجہتی کی واضح اور نمایاں مثالیں ہیں.
تاہم کہنے کا مطلب یوں ہے کہ بلوچ قوم نے ہمیشہ حالات کے تغیر وتبدل اور قومی اتفاق رائے کی اہمیت کا بخوبی ادراک کرتے ہوئے ایک ہونے اور ساتھ چلنے کا عملی نمونہ پیش کرکے قوم دشمنوں اقدامات کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا ہے.مگر آج جس برق رفتاری سے خطے میں حالات تغیر وتبدل کی جانب بڑ رہے ہیں.نئی دوستیاں،اتحادیں، نزدیکیاں قائم ہورہی ہیں.پرانے سے پرانے حریف گلے مل رہے ہیں ۔ معاشی وتجادتی مقاصد کے لیے ماضی کی تلخ یادوں کوبھلا کرسو شلسٹ اور مذہبی قوتیں مستقبل قریب میں ایک سا تھ چلنے کیلئیے پر عزم دکھائی دیتے ہیں. لیکن بدقسمتی سے بلوچ قومی سیاست نئی تغیر و تبدل سے واقف ہونے کے باوجود قومی یکجہتی کے تقاضوں سے قاصر روایتی سیاست کی دھُن میں مگن اور بلوچ قومی طاقت منتشر جبکہ باہمی اختلافات کا دور دورہ بالخصوص خوشامدیت اور چاپلوسیت کی انتہاء ہے اور قومی مفاد پس منظر اور ذاتی وگروہی اور پارٹی مفاد پیش منظر میں نمایاں جیسے صورتحال سے دوچار ہے۔کیا بلوچ قوم یا قومی سیاست کے تمام عنصر خطے میں نئی تغیر وتبدل اور وقوع پذیر نئے حالات سے لاعلم ہیں؟ نہیں ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ بلوچ ساحل سمندر گوادر دنیا کی توجہ بن کر اسکی نئی معاشی،تجارتی و اقتصادی ضروریات کا مرکزی مقام بننے جارہا ہو اور خود بلوچ اس سے لا علم ہو. یقینی طور پربلوچ قوم بشمول تمام عناصر قومی سیاست اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ آج بلوچ خطے میں کیاہورہاہے ؟اور آنے والے دنوں میں کیا پیش بندیاں اور صف بندی ہوسکتی ہے؟لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم میں غیر سطحی و خود ساختہ اختلافات کم ہونے اور قر بت بڑھنے،سیاسی وجمہوری طریقے سے مدلل انداز میں اختلاف رائے بالخصوص منطق کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قائل کرنے کی بجائے رقابتیں اور دوریاں طول پکڑتی جارہی ہیں جو قومی صفوں میں انتشار کا سبب بن کر باہمی قومی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں.اسی طرح اگر تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالی جائے تو بد قسمتی سے بلوچ علم ودانش، فکر وشعور،سیاسی فہم و فراست نہ ہونے کے سبب کبھی قومی خودمختاری تو کبھی قومی خود اختیاری، کبھی حق حاکمیت تو کبھی حق ملکیت جسے نعروں میں الجھ کر ایک دوسرے کیخلاف صف آراء ہو کر توانائیاں صرف کر کے اپنی قومی طاقت منتشر کرکے تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر اتحاد و اتفاق اوریکجہتی سے ہچکچا کر متحد ہونے میں ناکام رہے ہیں.اسی طرح کبھی خود ساختہ فرسودہ قباہلی نظام کے شکنجوں میں بری طر حپھنس کر زئی ،خیل اور قباہل کے نام پر تقسیم کا شکار رہے ہیں تو کبھی لسانیت کا مسئلہ تقسیم کا باعث بن کر قومی صفوں میں انتشا ر کی سبب بنا .اس کے علاوہ کبھی مذ ہب نے یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ بن کر فرقہ و مسلک کے نام پر منقسم کرکے ایک ہونے نہیں دیا.جسکی وجہ سے بلوچ بحیثیت قوم اپنے قومی حقوق کے لیے جامع انداز میں آواز بلند نہ کر سکی.
تاہم آج بلوچ بحیثیت قوم ایک انتہائی نارک دور سے گزر رہا ہے.ایک طرف باہمی اختلافات،قباہلی رنجشیں ہیں تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں وقت و حالات کا ادراک کئے بغیر قومی اتحاد ویکجہتی سے قاصر ایک نامعلوم منزل کی جانب رخت سفر ہیں.جبکہ قومی ایشوز پر ہم آئینگی سے گریزاں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں.اسی طرح سی پیک جیسے اہم قومی معاملے پر قومی ہم آہنگی کی بجائے ایک مہبم تضاد نقطہ نگاہ اور خیال جنم لے کر درحقیقت بلوچ قوم کو حیرت میں مبتلا کر چکا ہے.مزید یہ کہ اس حوالے سے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی آراء انتہائی دلچسپ ہے. ایک بڑی سیاسی جماعت کا موقف ہے کہ سی پیک منصوبہ سیندک،ریکوڈک،ودیگر منصوبوں کی طرح بلوچ قوم کی محرومی اور اغیار کی ترقی ہے کیونکہ اس منصوبے میں بلوچ قوم سے اصل حقائق و منصوبوں کی تفصیلات چھپائی جارہی ہیں.اور مغربی روٹ پر بلوچ وپشتون سے کئے گئیے وعدے وفا نہیں ہو رہے.خصوصاً گوادر کے عوام کے لیے بنیادی ضروری اقدامات کئے بغیر اس منصوبے کا افتتاح ہوچکا ہے. اس سے یہی ثابت ہور ہاہے کہ یہ منصوبہ دیگر منصوبوں کی طرح اہل بلوچستان کی محرومی و بلوچ قوم کے استحصال اور اغیار کی تعمیر و ترقی کا منصوبہ ہو سکتا ہے. جبکہ دوسری بڑی جماعت کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ بلوچ قوم کے مفاد میں ہے.تاہم اس منصوبے پر ہمارے قومی خدشات برقرار ہیں لیکن بلوچ قوم کو اس منصوبے کی حمایت کرنا چاہئیے.
اب جبکہ دو مختلف آراء سامنے آگئے ہیں. جن کے بارے میں عام بلوچ ایک مبہم و اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہیے کہ کون سی آراء بلوچ قوم کو ایک قومی سمت مہیاء کر سکتی ہے.اگرچہ باریک بینی سے بغور جائزہ لیا جائے تو پہلی قومی جماعت کے موقف میں ذرا وزن ضرور موجود ہے لیکن دوسری جماعت کا موقف اتنا موئثر نہیں.کیونکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں.اور آج تک گوادر کے عوام کو بجلی،گیس،تعلیم وصحت کی سہولیات تک میسر نہیں.اور لوگ پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں. جبکہ منصوبے کے فنکشنل ہونے کے بعد نئی تبدیلی کی صورت میں کروڑوں انسانوں کی گوادر میں آباد کاری اور اربوں انسانوں کی آمد رفت کے بعد مقامی لوگوں کی زبان،شناخت اور ثقافت کہاں کھڑی ہوگی یہ کوئی راکٹ سائنس والی بات نہیں۔
بلوچ صدیوں سے اپنے قومی شناخت کی جنگ لڑتے ہوئے اپنے قومی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں. اب جبکہ بلوچ بالخصوص گوادر کے مقامی لوگوں کو آئینی ضمانت دیئے بغیر منصوبے کی دیگر مراحلوں میں غیر مقامیوں کی آبادکاری بلوچ قومی تشخص کو ملیامیٹ کرسکتی ہے جبکہ بلوچ قوم کی اکثریت کا خیال ہے کہ غیر مقامیوں کی بلوچستان بالخصوص گوادر میں شناختی کارڈ،لوکل سرٹیفکیٹ اور ووٹر لسٹس میں اندراج پر مکمل پابندی ہوتاکہ نئی آباد کاری کے باوجود بلوچ اپنے تشخص،شناخت بالخصوص قومی بقاء کو برقرار رکھ سکے. میرا یہاں قطعی طور پر دوبڑی سیاسی جماعتوں کا تقابلی جائزہ مقصود نہیں.البتہ بلوچ قوم کی اکثریت کی نمائندگی کا دعوے دار ہونے کی وجہ سے بلوچ خطے میں نئی تغیر وتبدل وبلوچ یکجہتی کے تقاصوں اور معاملات پر ہم آئینگی پیدا کرکے قومی بقاء کے لیئے مشترکہ جدوجہد کے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی باعث زیر بحث ہے.
سی پیک منصوبے سمیت کسی بھی ترقیاتی عمل کی کوئی ذی شعور بلوچ بلاوجہ مخالفت تودر کنار اس کا سوچ بھی نہیں سکتاکہ اہل بلوچستان خاص طور پر بلوچ ترقی وخوشحالی اور آسودگی جیسی نعمت سے محروم رہے.بلکہ بلوچ قوم سی پیک منصوبہ سمیت ہر اس ترقیاتی منصوبے میں شراکت دار بن کر اپنے قومی فلاح وبہبود کیلیے ملک کے دیگر شہریوں کی طرح اپنے حصے کا خواہاں ہیں جسکی آئینی ضمانت ملکی آئین دے چکی ہے.
البتہ بلوچ قوم سے وفاق کی جانب سے ہر منصوبے کی آغاز میں کئی بڑے بڑے وعدے کیئے جاچکے ہیں. پھر بلوچ قوم کو مکمل نظرانداز کرکے ترقیاتی عمل سے محروم رکھ کر وعدے وفا نہیں کئیے گئے جسکی وجہ سے بلوچ اور وفاق کے درمیان تلخیاں پیدا ہوئی ہیں. آج بھی شہید وطن نواب اکبرخان بگٹی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال برقرار ہے.بلوچ اور وفاق کے مابین اعتماد کا فقدان موجود ہے تاہم بلوچستان کے مسئلہ بالخصوص بلوچ قوم کے بنیادی مسائل حل طلب ہیں جسے سیاسی و انتظامی اور مثبت انداز میں حل کیا جاسکتا ہے.