15اگست 1947کو تقسیم برصغیر کے بعد 14مارچ 1948کو خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ایک مہینے کیلئے اپنے گھر عنایت اللہ کاریز گلستان میں نظر بند کےئے گئے اور 9-8جون کو انجمن وطن کا آخری اجلاس ہوا ۔ جس میں اسے پیپلز آرگنائزیشن میں ضم کرنے کا فیصلہ ہوا ۔ نئی مملکت اسلامی کا یہ ایک مہینہ اس وقت ختم ہوا جب خان شہید کو 10جنوری 1954کو رہائی ملی ۔ سیاسی حالات تبدیل ہوچکے تھے برصغیر پاک وہند کو آزادی ملی تھی خان شہید نئے نئے حالات کی تناظر میں 25اپریل1954ء کو ورور پشتون کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ اس جماعت کے قیام کا مقصد پاکستان کے اندر متصل پشتون علاقوں ( صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) ، برطانوی بلوچستان ، پنجاب کے پشتون اضلاع وغیرہ) پر مشتمل متحدہ صوبے پشتونستان کے نام تشکیل تھا ۔ خان شہید اس جماعت کے کنوینئر اور ہاشم خان غلزئی جنرل سیکرٹری منتخب کئے گئے ۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور اپنے 27اپریل 1954کے اداریے میں لکھا کہ ’’ پشتونستان کی محرکین نے ورور پشتون ‘‘ کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی ہے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی جنہیں پانچ سالہ کی نظر بندی کے بعد رہا کردیا گیا ہے اس کے کنوینئر ہوں گے وہ انجمن وطن کے صدر تھے تیرہ بندوں کی ایک سب کمیٹی بنائی گئی ہے جو’’ورور پشتون ‘ کا آئین تیار کرے گا معلوم ہوا ہے کہ نئی جماعت لسانی بنیاد پر پشتو بولنے والے علاقوں کے لئے پشتونستان کے نام سے ایک علیحدہ یونٹ کے قیام کی کوشش کرے گی ‘‘
ابھی تک خان شہید نے صحیح معنوں میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بھی نہیں کیا تھا کہ ۔اے ۔ جی ۔ جی اور چیف کمشنر برطانونی بلوچستان قربان علی نے 17جولائی 1954کو بلوچستان پبلک سیفٹی ایکٹ 1947کے تحت ان کی نقل وعمل پر ایک مرتبہ پھر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کی ہر طرح کے جلسوں ، جلوسوں پریس کانفرنسوں سے خطاب پر پابندی لگا دی اور انہیں اپنے گھر عنایت اللہ کاریز گلستان میں نظر بند کرتے ہوئے یہ حکم بھی جاری کیا کہ موضع عنایت اللہ کاریز کے مستقل رہائشیوں کے سوا کسی بھی شخص سے کوئی رابطہ بھی نہیں رکھ سکے گا چونکہ ’’ ورور پشتون ‘‘ پہلی جماعت تھی جنہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان کے میں ایک متحدہ پشتون وحدت /صوبے کا نظریہ یا پروگرام پیش کی ۔ اس ضمن میں اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے جلسے ، جلوس ،پریس کانفرنسوں کے علاوہ کتابچوں اور حتیٰ کہ سالانہ کلینڈروں تک سہا را لیا گیا اپنی پہلی اشاعت ’’آئینہ پشتونستان ‘‘ کے ایک حصے میں پاکستان کے اندر ’’ پشتونستان ‘‘ کے قیام جس میں کوئٹہ کے ایک پبلک جلسے سے خان شہید کے خطاب کے ایک حصے کو اسی طرح نقل کیا ہے ’’ آج جب خدا کے فضل سے ہمارے اپنے مسلمان بھائیوں کی حکومت ہے ہم اس چیز کی بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ ہر مسلمان بھائی اس بات میں ہمارا ساتھ دے گا کہ پاکستان کے اندر پشتون ایک وحدت میں جمع ہو کر متحدہ ہوں اور اس صوبے کا نظم بالکل ایسا ہی ہو جیسا کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ہے ‘‘ مزید وضاحت کرتے ہوئے خان شہید کہتے ہیں ’’ مجھے اور میرے ساتھیوں کو پاکستان دشمن کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ ان لوگوں کا کہنا ہے جن کی اپنے اغراض ومقاصد اس سے وابستہ تھیں ورنہ کوئی شخص اپنے گھر کا کیونکر دشمن ہوسکتا ہے پاکستان کی ترقی وخوشحالی میری گھر کی ترقی وخوشحالی ہے اور خدانخواستہ پاکستان کی تباہی وبربادی میرے اپنے گھر کی تباہی وبربادی کے مترادف ہے ۔ لہٰذا کوئی بھی شخص جب تک کہ وہ پاگل نہ ہواپنے گھر کی بد خواہ نہیں ہوسکتا ۔ میرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے تمام پشتونوں کو ایک انتظامی وحدت میں متحد کیا جائے اس وحدت کا نام پشتونستان رکھا جائے اور انہیں اپنی زبان اورتمدن کے مطابق تعمیر وترقی کے وہ تمام مواقع فراہم کےئے جائیں جو پاکستان کے دوسرے صوبوں کے حاصل ہیں ‘‘ بلوچستان سے متعلق ’’ ورور پشتون ‘‘ کا موقف تھا کہ ’’ بلوچستان (برطانوی بلوچستان یعنی جنوبی پشتونخوا) اور ریاستی یونین ( بلوچ علاقے مکران ، قلات ، خاران ،لسبیلہ ) کی بلوچی بولنے والی آبادی ( مری ،بگٹی ، چاغی ، نوشکی ، نصیرآباد ) کو ایک انتظامی وحدت بنایا جائے او ر صوبہ سرحد ( خیبر پختوانخوا سے متصل پشتو بولنے بلوچستانی آبادی کو سرحد میں مدغم کیا جائے ‘‘ دراصل یہی تجاویز تھی جوبعد میں پہلے پاکستان نیشنل پارٹی اور بعد میں پاکستانی نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی اہداف بنے پاکستان کے اندر لسانی بنیادوں پر صوبوں کی قیام اور تشکیل کے بارے میں ’’ ورور پشتون ‘‘ نے اپنے موقف کی مزید وضاحت اس طرح کی تھی ’’ اس تجویز یعنی لسانی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل سے جہاں دستوری اصلاحات کے نفاذ کی گھٹی سلجھ جائیگی ۔ وہاں اس کی بدولت اس خطے کی عوام کے راستے سے وہ رکاوٹیں بھی مٹ جائیں گی جو اس وقت ان کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ اور جو یقیناًاسی وقت بھی حائل رہیں گی اگر بعض غرض مند اور اس خطے کی عوام کی بیداری اور صحیح ترقی کے دشمن عناصر کی خواہش کے مطابق بلوچوں اور پٹھانوں کی ایک مصنوعی بلوچستان میں بجرواکراہ متحدکردیا گیا ان حالات میں جب کہ پاکستان کے ہر صوبے میں علاقائی زبانوں کی ترویج اور انہی کی بدولت ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی فطری اور صحیح رجحان پرورش پارہا ہے کو تو مصنوعی متحدہ بلوچستان میں لوگوں کے مختلف السانی طبقوں کے درمیان صرف یہی زبان کا مسئلہ بہت بڑے نزاغ کا باعث بن سکتا ہے اور اخوت ، محبت اور یگانگت بلوچوں اور پٹھانوں کے درمیان جو صدیوں سے چلی آرہی ہے وہ ہمیشہ کی کشمکش ، جنگ وجدل میں ہی تبدیل ہوسکتی ہے جو ظاہر ہے کہ نہ پاکستان کے خیر خواہ کا مقصد ہوسکتا ہے اور نہ ہی ان دونوں قوموں کے بہی خوا ہوں کا ۔ البتہ ان لوگوں کا ضرور ہوسکتا ہے جو بلوچوں اور پٹھانوں کے درمیان نفرت اور منافقت پیدا کرکے بلوچ اور پٹھان عوام کو لڑا کر سابقہ سامراجی روایات یعنی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کو برقرر رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
ابھی تک خان شہید نظر بند ہی تھے کہ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی اور مقتدر قوتوں سے بنگالیوں کی اکثریت ہضم نہیں ہوسکتی تھی لہٰذاپیریٹی یعنی برابری کے اصول کو تراشتے ہوئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے 22نومبر 1954کو سرکاری طور پر مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو آپس میں ضم کرنے اور ایک ون یونٹ کے نام سے ایک اکائی بنانے کا اعلان کیا30جون 1955کو اسمبلی نے بل پاس کیا لاہور اس کا دارالحکومت ٹھہرا مشتاق احمد گورمانی گورنر اور ڈاکٹر خان صاحب وزیر اعلیٰ کے کرسیوں پر براجمان ہوگئے ۔
جولائی1955میں خان شہید کی نقل وحرکت سے پابندی ہٹا دی گئی اور اکتوبر 1955میں ایک یونٹ کی اسمبلی کے جلد انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کیا گیا ڈاکٹر خان صاحب برطانوی بلوچستان کے واحد نشست پر انتخاب لڑرہے تھے اور بعد میں خود کو منتخب بھی کروایا ۔ ستم ظریفی دیکھے اس وقت اسی میں بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ جرگہ ممبران ہی کے سپرد کیا گیا جو کہ انگریزوں کے نامزد کردہ تھے انتخابی دورے کے سلسلے میں خان شہید لورالائی کے دورے پر تھے کہ ڈاکٹرخان صاحب کے حکم سے اپنے تقریرسے چند گھنٹے گرفتار کرکے ایک مہینے کیلئے لورالائی جیل میں بند کرائے گئے مگر ایک ہفتے کے اندر ہی اس نظر بندی کی معیاد میں چھ مہینے کی توسیع کی گئی البتہ چھ مہینے سے پہلے ہی رہائی نصیب ہوئی فروری 1956میں خان شہید نے پاکستان کے اندر ایک متحدہ صوبے پشتونستان کے قیام کیلئے صوبہ خیبر پختونخوا کا طوفانی دورہ کیا جس میں انہوں نے پشاور ، بنوں ، مردان اور دیگر علاقوں میں اجتماعات سے خطاب کیا 24فروری کو چوک یادگار پشاور اور 29فروری کو جناح پارک بنوں میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اندر لسانی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل ، ایک متحدہ پشتون صوبے پشتونستان کے قیام اور ون یونٹ کی سریحاً مخالفت کی جس پر ہوم سیکرٹری حکومت مغربی پاکستان نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پشاور اور پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ پشین کو انہیں گرفتار کرنے اور مقدمات چلانے کا حکم دیا ۔ ملک کے دونوں وحدتوں مشرقی اورمغربی میں ون یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا اور تمام جمہوری اور وطن دوست قوتیں قریب ہوتی رہیں۔ اس سلسلے میں 30نومبر تا 2دسمبر 1956کو لاہور میں میاں افتخار الدین کی رہائش گاہ پر مغربی پاکستان کے تمام سرکردہ رہنماؤں کا ایک تین روزہ طویل اجلاس ہوا۔ جن میں جی ۔ ایم ۔ سید ، مصطفی بھرگڑی ، شیخ عبدالمجید سندھی نے سندھی عوامی پارٹی ، سندھ محاذ ، خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اور ہاشم خان غلزئی نے برطانوی بلوچستان سے ورور پشتون ، خان عبدالغفار خان اور ارباب سکندر خان خیبر پختونخوا سے خدائی خدمت گار ، گل خان نصیر ،آغا عبدالکریم ، محمد حسین عنقاد اور بی ۔ ایم کْٹی نے ریاستی بلوچستان سے استمان گل ، میاں افتخار الدین ، سید امیر حسین شاہ اور میاں محمود علی مقصودی نے پنجاب سے آزاد پاکستان پارٹی کی نمائندگی کی۔ اور طویل بحث ومباحثے کے بعد ون یونٹ کے خاتمے ، برطانوی بلوچستان کو مکمل صوبے کا درجہ دینے ، لسانی بنیادوں پر ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل ، سامراج مخالف اور غیر وابستہ خارجہ پالیسی اپنانے ، تمام ممالک خصوصاً ہمسایوں اور سوشلسٹ بلاک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے اور اقتصادی روابط بڑھانے ، شہریوں بشمول کسانوں ، مزدوروں ، خواتین اوراقلیتوں کی بنیادی حقوق کے تحفظ جیسے اہداف کے حصول کیلئے پاکستان نیشنل پارٹی کی داغ بیل ڈالی ۔ نئی جماعت ہی مغربی پاکستان میں ایک نمائندہ جماعت ابھر کر سامنے آئی ۔اگر دیکھا جائے تو نئی پارٹی کے اہداف میں تقریباً وہی ’’ ورور پشتون ‘‘ والے سارے اہداف شامل تھے اور یہی اہداف اور مقاصد بنگالیوں اور دیگر محکوم اقوام کی ضرورتیں بھی پوری کرتی تھیں۔ لہٰذا انہی حالات کو دیکھتے ہوئے 25-24جولائی 1957کو ڈھاکہ میں جمہوری ورکرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عبدالحمید بھاشانی کے عوامی لیگ کے ساتھ چند مزید ترقی پسندپارٹیوں اور افراد جن میں حاجی دانش کی جنتری دل ، حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری کمیٹی کی شمولیت سے پاکستان نیشنل پارٹی کو پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کی روپ دی گئی۔ مشرقی پاکستان سے عبدالحمید خان بھاشانی اس کے صدر اور مغربی پاکستان سے محمود الحق عثمانی اس کے جنرل سیکرٹری منتخب کےئے گئے نئی پارٹی نے بھی کم وبیش وہی لائن لی جو اس سے پہلے ’’ ورور پشتون ‘‘ اور پاکستان نیشنل پارٹی اختیار کرچکی تھی البتہ اس میں پاکستان کی اقتدار اعلیٰ ، خود مختاری اور آزادی کی دفاع ، سیٹو اور سینٹو بعد میں بغداد ، پیکٹ(PECCT) سے علیحدگی ، خارجہ ، کرنسی ، دفاع کے علاوہ باقی تمام امور کی صوبوں کو منتقلی جیسے مطالبات شامل کےئے گئے ۔ نیپ صحیح معنوں میں وہ واحد جماعت تھی جس نے مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے مفادات کو چیلنج کیا ۔ پاکستان نیشنل عوامی پارٹی جو کہ نیپ کے نام سے مشہور ہوئی اس میں خان شہید کا کردار ایک مرکزی رہنما کا تھا اور بلوچستان میں خان شہید وہ واحد رہنماء تھے جو اس پیغام کو عام کررہے تھے ۔ 21اگست 1957کو مولوی عبدالخالق تارن ، عبدالخالق کاسی ، محمد ہاشم خان غلزئی کے ہمراہ صوبے کے دورے کے سلسلے میں پشین میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عوام پر ون یونٹ کے خاتمے پر زور دیا اور کہا کہ پشتون اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک وہ دوسروں کے زیر دست ہوں ۔ خان شہید نے کہاکہ میرا پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے پاکستان میرا ملک ہے البتہ پشتونستان ہمارا حق ہے اور یہی ایک درست پاکستان کے بھی مفاد میں ہے ۔یہیں عام انتخابات کے حوالہ دیتے ہوئے خان شہید نے کہا کہ صرف ان نمائندوں کو ووٹ دیں جو ون یونٹ کے مخالف ہوں ۔ انہوں نے لوگوں پر زور د کہ وہ اپنے خواتین کے ناموں کا اندارج ضرور کرائیں ۔ اسی دور کے ضمن میں انہوں نے بعد میں قلعہ عبداللہ ، چمن اور گلستان کا بھی دورہ کیا ۔
کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے 10ستمبر 1957کو ہوم سیکرٹری ، مغربی پاکستان کو سفارشات کےئے کہ پاکستان کے قلم رو میں پشتونستان کے قیام کا خان عبدالصمد خان اچکزئی کا پروپیگنڈہ لوگوں کو متاثر کےئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب چونکہ جرگہ نظام بھی موجود نہیں ہے اور میدان سیاست میں کوئی بھی اپنی پارٹی موجود نہیں جس کے ذریعے ہم ان کی سرگرمیوں کا راستہ رو سکیں ۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ عبدالصمد خان اور اس کی پارٹی ’’ ورور پشتون ‘‘ اور اب نیپ کو سرحد کے دونوں پار عوام کی تائید وحمایت حاصل ہے۔ لہٰذا ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ ایک مرتبہ پھر ان کی نقل وحمل پر اسی طرح پابندی عائد کی جائے کہ جس طرح سابقہ حکومت بلوچستان نے 17جولائی1957کو عائد کی تھی۔
خان شہید نے اپنے دورے کے ضمن میں 4اکتوبر 1957کو سنجاوی ، 5اکتوبر کو لورالائی اور دکی وغیرہ کے دورے کیے ۔ اس دورے میں دوسروں کے علاوہ مایہ ناز ادیب اور شاعر پروفیسر رب نواز مائل نے بھی فعال کردار ادا کیا تھا ۔ ان جلسوں میں خان شہید کے تقاریر کالب لباب ’’ پشتونستان کا قیام ‘‘ ون یونٹ کا خاتمہ اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا حصول تھا۔ (ان کی تمام تقاریر کی مکمل تفصیل جلد ہی میری کتاب میں آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں) ملک میں بڑھتی ہوئی ان سیاسی سرگرمیوں اور عام انتخابات کے پرزور مطالبے سے بھڑ کر جنرل ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کے ذریعے ملک میں 8اکتوبر 1958کو مارشل لاء کا نفاذ کروایا ۔ آئین معطل ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو برخاست ، مشرقی اور مغربی پاکستان کی اسمبلیوں کو توڑ اور تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی اس ضمن میں پورے پاکستان میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی وہ واحد سیاسی رہنماء تھے جو سب سے پہلے گرفتار ہوئے اور سب سے آخر میں رہا ہوئے۔