|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2016

غم اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں وقت کیساتھ انسانی کی زندگی میں مختلف حالات وواقعات اور تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور انسان ہر بدلتے وقت اور لمحے کیساتھ کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہے وہ کہتے ہیں کہ واقعات اور سانحے آکر چند لمحے کے بعد واپس چلے جا تے ہیں مگر جاتے جاتے انسان کی زندگی میں کچھ تبدیلیاں چھوڑ جا تے ہیں و قت کیساتھ ساتھ انسان بدلتا رہتا ہے غم کے واقعات انسانی جسم اور روح پر کچھ نا خوشگوار اثرات چھوڑجاتے ہیں جو انسانی دماغ کو کافی گہرائی تک چھو جا تے ہیں۔ غم، خوشی، ناکامی اور غیر یقینی صورتحال بھوک وافلاس میں سہارا بننے والے وہ دو ہاتھ’’عورت‘‘ کے ہیں جواس معاشرے کا عظیم حصہ ہے ہاں وہ عورت ہی ہے جس نے ہر وقت زندگی کے ہرمیدان میں انسان کو سہارا دیا مگر جب اس عظیم ہستی کو سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں رہتا اور سب اپنی انا کی خاطر پیچھے ہٹ جا تے ہیں ہائے افسوس کہ یہ عظیم ہستی غریب اور مایوسی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے اپنی صحت اور حالات وواقعات دیگر رشتوں کی پرواہ کئے بغیر زندگی کی ہر کسوٹی میں انسان کا ساتھ دیتے ہوئے عزم وہمت کے پیکر کا کردار ادا کر تی رہتی ہے۔ عورت ماں ہے جو اپنے سینے میں اولاد کا ہر دکھ سکھ اور تکلیف سہتے ہوئے غموں کا انبار اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتی ہے اور کبھی بھی اس کے چہرے سے مایوسی اور انکار کی کیفیت عیاں نہیں ہو تی عورت بہن ہے جو اپنے بھائی اور ماں باپ کا نام اونچا رکھنے کیلئے ہمہ وقت جہد عمل میں مصروف رہتی ہے ’’عورت‘‘ بیٹی ہے جو اپنے ماں باپ اورخاندان کے دیگر افراد کی خوشی کیلئے اپنی پڑھائی اور بہتر مستقبل کو چھوڑ سکتی ہے ’’عورت‘‘ بیوی ہے جو اپنے شوہر کے انتظار میں جاگتی آنکھوں کیساتھ رات گزار دیتی ہے مگر رات کو ایک لمحہ بھی نہیں سوتی اسی خیال میں کہ ایسا نہ ہو کہ اس کا شوہر دروازہ کھٹکھٹاتا رہے اور وہ سور رہی ہو اپنا سکون اور راحت سب قربان کر تی ہے تاکہ خاندان کے دیگر افراد سکھ کا سانس لے سکیں اور کسی بھی چیز کی کمی انہیں محسوس نہیں ہونے دیتی ایسی قربانیاں ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ انتہا کی آخری حد تک جائے مگر اس عظیم ہستی نے وہ کر دکھایا اور قربانیوں کا کریڈٹ اپنے سرلے گئی۔ یہاں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اتنی بڑی قربانی کے بعد ہم نے’’عورت‘‘ کو کیا دیا دل خون کے آنسور رونے لگتا ہے کا غذ کے اوراق ان غموں کی دردبھری داستانیں لکھتے لکھتے کم پڑ جاتی ہیں قلم کی سیا ہی ختم ہو جا تی ہے مگر ظلمت اور تاریکی کے ادوار کی وہ بھیانک داستانیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں آخر ہم نے ’’عورت‘‘ کو بدلے میں کیا دیا ہے سیاہ کاری کے الزام میں اس معصوم سی فاختہ کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا تاکہ آئندہ کوئی بھی قربانی کی مثال نہ دے سکے ۔گھر کی چار دیواری میں رکھ کر تعلیم سمیت دیگر علم وآگاہی کے مواقع اس پر بند کر دیئے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پڑھ لکھ کر ہمارا مقابلہ کرنے کی جسارت کر سکے۔ یہی صلہ دیا ہم نے زندگی کا اصل مقصد سمجھنے کی بجائے صرف ایک کمرے میں بند کر کے محکوم بنا دیا ہمیں ایسا کرنے کاہر گز حق نہیں اور اسلام بھی ہمیں کسی کی آزادی صلب کر نے کی اجازت نہیں دیتا مگر معاشرے نے ہمیشہ عورتوں کی آزادی صلب کرنے میں صف اول کاکردارادا کیا ہے اس سب کے بعد بھی اس کے رویئے اور سوچ وفکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اب بھی’’ عورت‘‘ اپنے بہن، بھائی، شوہر اور ماں باپ کی خوشی کیلئے سب قربانی کرنے کیلئے تیار ہے۔ بلوچستان کے مختلف سرکاری ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز اور گائنی ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کے باعث خواتین کو انتہائی مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے صوبائی حکومت تبدیلی کے دعوے تو بہت کر تی رہتی ہے اور اخبارات کی ہیڈ لائنز انہی بلند وبانگ دعوؤں کی زنیت بنی رہتی ہیں مگر حقیقت اس سے کافی مختلف ہے نامناسب بندوبست کی وجہ سے دوران ڈلیوری اکثر خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں مگر پھر بھی حکومت دعوے کر تے ہوئے تھکنے کا نام ہی نہیں لیتی اس کی واضح مثال بلوچستان کے دور دراز کے اضلاع تفتان،نوکنڈی،چاغی، دالبندین، خاران اور نو شکی سمیت دیگر اضلاع کے ڈی ایچ کیوہسپتالوں میں طبی سہولیات کی عدم فراہمی ہے غریب عوام لیڈی ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ کلینکس اور عطائی ڈاکٹروں کے رحم وکرم پر ہیں صاحب استطاعت افراد علاج کیلئے صوبائی دارالحکومت کا رخ کر تے ہیں اوریہاں بھی پوری فیملی ایک کرب سے گزر رہی ہو تی ہے جن لو گوں کے پاس پیسے نہیں ہو تے وہ مقامی خواتین جنہیں بلوچی زبان میں’’داعی‘‘ کہتے ہیں سے علاج کراتی ہیں اکثر اوقات غیر تجربہ کار ’’داعی‘‘ عورتوں کے ہا تھوں دوران ڈلیوری ماں اور بچے دم توڑ جا تی ہیں ۔خواتین کے تعلیم اور روزگار کے مواقع کا موازنہ کیا جائے تو حالات اسی طرح ہیں اکثر اضلاع میں سکول اور کالجز ہی نہیں ہیں چند اضلاع میں اگر ہیں تو وہ بھی نام کے یا وہاں خواتین اساتذہ نہیں ہیں جو لڑکیوں کو پڑھائیں یا قبائلی وجہ سے اکثر لڑکیاں تعلیم کو خیر باد کہہ دیتی ہیں خواتین کو روزکے مواقع بھی بہت کم ملتے ہیں اکثر اوقات متعلقہ اضلاع سے با ہر پوسٹنگ کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کر تی ہیں سرکاری محکموں میں روزگار کے مواقع اکثر اقرباء پروری اور کرپشن کی نظر ہو جا تے ہیں اور خواتین مایوس ہو جا تے ہیں۔ اسلام ہمیں خواتین کا احترام کرنیکا درس دیتا ہے ہمارے مذہب میں عورت کا ایک انتہائی اعلیٰ اور مقدس مقام ہو تا ہے اس لئے یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ان کو وہ مقام دیں جو انکا حق ہے ان کے مسائل غور سے سن کر حل کرنے کیلئے کوشش کریں حکومت کو صرف بلند وبانگ دعوے اور عوامی جلسوں میں بڑے اعلانات کے حد تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ خواتین کی فلاح وبہبود کیلئے سنجیدگی کیساتھ اقدامات اٹھانے ہونگے روزگار کے مواقع فراہم کر نا ہو نگے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ عورت تعلیم یافتہ قوم کی بنیاد رکھ سکتی ہے آج ہم اپنی زندگی کو سہل اور آرام دہ محسوس کر رہے ہیں تو اس میں خواتین کا اہم کردار ہے حکومت تمام گرلز سکول اور کالجز میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی عمل میں لا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور مختلف علاقوں میں خواتین کے حل طلب مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کرے تاکہ خواتین پڑھ لکھ کر نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کر سکیں۔