کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے پاک ترک سکول کے اساتذہ اور اہلخانہ کی ملک بدری سے متعلق حکم امتناع جاری کردیا۔ یہ حکم بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جناب جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کوئٹہ میں تعینات ترک اساتذہ اور اہلخانہ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دیا۔ درخواست گزاروں کی جانب سے نادر چھلگری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ وزارت داخلہ اسلام آباد کی جانب سے ترک اساتذہ اور اہلخانہ کی ملک بدری کے احکامات انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ ان اساتذہ نے کئی سالوں تک کوئٹہ میں پاکستانی طالب علموں کو پڑھاکر اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے وزارت داخلہ کے احکامات پر عملدرآمدروک دیا اور وزارت کو تاحکم ثانی ہدایت کی ہے کہ وہ ترک اساتذہ اور ان کے اہلخانہ کو ملک بدر نہ کرے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے حکم کو اگلی سماعت پر پیش ہونے کا حکم بھی دیدیا۔ اگلی سماعت دسمبر کے آخری ہفتے میں ہوگی۔ یاد رہے کہ کوئٹہ میں پاک ترک انٹرنیشنل سکول سسٹم کے تین کیمپس میں 1400سے زائد طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ ان تینوں سکولوں میں پڑھانے والوں میں20ترک اساتذہ بھی شامل ہیں۔ چند ماہ قبل ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا الزام امریکہ میں پناہ گزین ترک اسکالر فتح اللہ گولن پر لگایا گیا جس کے بعد ترکی میں فتح اللہ گولن کے حامیوں کے زیر انتظام چلنے والے تمام اداروں کو بند کردیا گیا تھا۔ترک حکومت کے دباؤ پر پاکستان میں چلنے والے پاک ترک اسکولوں کا انتظام بھی فتح اللہ گولن کے حامیوں سے واپس لے لیا گیا تھاجبکہ پاکستانی حکومت نے پاکستان میں موجود پاک ترک سکولوں کے ترک اساتذہ اور اہلخانہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیدیا۔ بلوچستان ہائیکورٹ سے قبل پشاور اور سندھ ہائی کورٹ بھی وزارت داخلہ کے احکامات پر عملدرآمد روک چکی ہے۔